ہر طرف اک شور برپا ہے کوئی تو ہماری سنے

Panama Case

Panama Case

تحریر : عبدالجبار خان دریشک
پچھلے ایک سال ملک میں پانامہ ہنگامہ کا معاملہ ایوانوں عدالتوں اور میڈیا میں مسلسل چل رہا ہے اب یہ کب اختتا م کو پہنچتا ہے یہ تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن اب لگ یہ رہا ہے کہ اس کا آخری اور فا ئنل راونڈ چل رہا ہے جس کے اختتام ہونے کا پور ی قوم کو شدت سے انتظا ر ہے حکمران اپنے اقتدار کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں تو اپوزیشن ان کو رخصت کرنے چکر میں ہے اس سیاسی کشمکش کی صورت حال میں عوام کے مسائل نہ حکمرانوں کو یاد ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کو سب کرسی کے چکر میں لگے ہوئے ہیںاگر ملک میں ترقیاتی کام ہو بھی رہے ہیں تو وہ صرف چند بڑے شہروں تک محدود ہیں پنجاب کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے باقی صوبوں کی نسبت بہتر سمجھا جاتا ہے پنجاب میں تیزی سے ہوتے ترقیاتی کاموں اور ان کی رفتار کا جائزہ لیا جائے تو پنجا ب میں پیداوار اور وسائل ایک حصے میں موجود ہیں جبکہ ترقیا تی کام اور ان پر آنے والے اخرجا ت دوسرے حصے میں خرچ ہو رہے ہیں۔

اسی طرح جنوبی پنجا ب جہاں پسما ند گی اب تک برقرار ہے جنوبی پنجاب کو زرعی پیدار وارکے حو الے سے پور ے پا کستا ن میں ایک نما یاحیثیت حا صل ہے اور اسی طر ح جنوبی پنجاب کی زرعی پیداوار میں راجن پورکی اپنی ایک الگ پہچان ہے راجن پورپنجا ب کا آخری اور پسما ند ہ ترین ضلع ہے جہاں شرح خواندگی نچلی ترین سطح پر ہے غربت بے روزگاری سہولیات کی کمی بیماریاں سب حوالے سے یہاں کی صورت حال افسوسناک ہے لیکن یہاں کی زرعی پیدار وار کے اعداد شما ر حیر ان کن ہیں راجن پور نہ صرف پنجا ب میں بلکہ پورے پاکستان کی اوسط پیدار وار میں اپنا ایک اچھا خاص حصہ شامل کر تا ہے جغرافیائی اعتبار سے راجن پور سند ھ بلو چستان کے سنگم پر واقعہ ہے راجن پور کے مغرب میں کوہ سلیما ن کا پہاڑی سلسلہ مشرق میں دریا سند ھ ہے بہترین آب وہوا کی وجہ سے راجن پور کی زمینیں سو نا اگلتی ہیں یہاں کا کل رقبہ18 لا کھ 55 ہزار 257 ایکڑ ہے اور قابل کا شت رقبہ 9 لاکھ 67 ہزار کے قریب ہے زیادہ تر رقبے پر گند م کا شت کی جاتی ہے جو کہ 4 لاکھ 14 ہزار ایکڑ ہے کپاس 3 لاکھ 39 ہزار ایکڑ گنا 40 ہزار ایکڑ ‘چاول 14 ہزار 502 ایکڑ آم کے با غا ت تقریباً 20 ہزار ایکڑ پیاز دس ہزار ایکڑ اس کے علاوہ دیگر فصلیں جن میںدالیں چناسبزیاں جانوروں کے چارے اور تحصیل جام پور میں تمباکو کی کاشت بھی شامل ہے۔

اگر یہاں گند م کی پیدا وار کی بات کی جا ئے توسال 2017 میں محکمہ خوراک پنجاب نے پورے پنجا ب میں سے گندم کی 4کروڑ بوریاں خریدکیں جن میں سے 47 لا کھ پچاس ہزار بو ریاں ڈیرہ غا زی خا ن ڈویژن سے خرید کی گئی ڈیر ہ غا زی خا ن ڈویژن چار اضلا ع مظفر گڑھ’ لیہ’ڈیر ہ غا زی خا ن اور راجن پور پر مشتمل ہے صرف اکیلے راجن پور سے گند م کی16 لا کھ بوری خرید کی گئی جبکہ دس لا کھ بوری کے قریب دوسرے صوبوں اور دیگر علاقوں کے بیو پاری وفلو رملز والوں نے خریدیں اور اس سے کہیں زیادہ گند م کا شت کاروں اور علا قے کے لو گوں نے اپنی سالانہ ضرورت کے پیش نظر خوراک اور بیج کے لئے ا پنے پاس محفوظ کر لی راجن پور کو کپاس کی پیداوار اور کو الٹی کے حو الے پورے پاکستان میںاعلی مقام حاصل ہے جو اپنے لمبے ریشے کی وجہ سے بلو چستان میں چند اضلاع کے بعد پنجا ب میں راجن پور اور رحیم یا ر خان کی تحصیل صادق آبا دکا نمبر آتا ہے گزشتہ سال پنجا ب میں کپاس کی 80 لا کھ گا نٹھیں خرید ی گئی تھیں جن میں سے صرف راجن پور کی پیداوار 4 لا کھ گانٹھیں تھیں پاکستان میں گنے کی فصل کے حوالے سے سند ھ کے بعد پنجا ب میں رحیم یار خان اور راجن پور کا نمبر آتا ہے راجن پور کا گنا ہ ریکو ری کے اعتبار سے اعلی کو الٹی کا تصور ہو تا ہے جس کی ریکو ری فی سو کلو گنے میں سے 11 سے 12 کلو چینی ہے۔

راجن پور میں دریا سند ھ کے کنارے گنے کی فی ایکڑ پیداوار 11 سو سے 13 سو من ہے جبکہ یہاں پر ایک ہی شوگر مل ہے جس کی سالانہ چینی کی پیداوار تقریباً 30 لاکھ بیگ کے لگ بھگ ہے اس کے علاوہ بڑی تعداد میں یہاں کا گنا ہ سندھ اور رحیم یار خان کی شوگر ملز کو بھی سپلائی ہوتا ہے راجن پور چونکہ ایک زرعی علاقہ ہے یہاں کی زیادہ تر آبا دی دیہا توں میں رہتی ہے لو گ کھیتی باڑی کے ساتھ ما ل مو یشی بھی پا لتے ہیں لائیو سٹاک میں راجن پور ملکی ضروریات کا 8 سے 10 فیصد چھو ٹا گو شت اور 12 سے 14 فیصد بڑا گو شت پورا کر تا ہے قربانی کے لئے پورے پاکستان سے خریدار یہاں کا رخ کرتے ہیں زراعت کے شعبے میں پا نی سب سے اہم بنیا دی اور پہلی ضرورت ہے پانی کے بغیر ویر انی ہو گی خوشحالی کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی فصل اگائی جا سکتی ہے نہری پانی فصلوں کے لئے بے پناہ فائدہ مند ہونے کے ساتھ سستااور آسان ذریعہ بھی ہے لیکن راجن پور میں نہری پانی کی صورتحال بھی افسو سنا ک ہے یہاں نہر ی پا نی فصلوں کے علاوہ انسانی ضرورت کو بھی پورا کر تا ہے کیو نکہ زیر زمین پانی کڑوا اور نا قابل استعما ل ہے دوسری طرف واٹر سپلائی سیکمز ناکارہ ہونے کی وجہ سے انسا ن نہر ی پا نی پینے پر مجبور ہیں ڈیرہ غا زی خا ن اور راجن پور کے دو اضلا ع کے لئے ایک ہی نہرجس کا نا م ڈی کینال جو تونسہ بیر اج سے نکالی گئی ہے جس میں پا نی کا کو ٹہ دس ہزار کیو سک تک ہے جب یہ نہر راجن پور کی حد دو میں زیر وہیڈ کے مقا م پر داخل ہو تی ہے تو اس کا ڈسچا رج 32 سو کیو سک رہے جا تا ہے جو پورے ضلع راجن پور کی ضروریات کو پورا کرنے لئے انتہا ئی نا کا فی ہے مزید حیر انی کی بات یہ ہے کہ یہ نہر سالا نہ کی بجا ئے ششما ہی ہے اس نہر سے مزید لنک نہر یں نکا لی گئی ہیں جن میں پا نی وارا بندی کے حساب سے آٹھ آٹھ دن کے وقفے سے چھوڑا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ داجل کینا ل کی توسیع کا منصوبہ برسوں سے زیر التوا کا شکار ہے یہاں کے بچا رے کسان اپنی پا نی کی ضروریات ٹیو ب ویل سے پوری کرنے پر مجبور ہیں اس ذریعہ آبپاشی سے کاشت کاروں کو بچت کی بجا ئے نقصا ن اٹھانا پڑتا ہے کسانوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم کے سیکرٹر ی جنر ل راو افسر راجن پور میں کسانوں کے حقوق کے لئے بہت سرگرم ہیں پانی کے مسئلے کے لئے انہوں نے یہاں کسانوں متحد کر کے اونٹوں پر 610 کلو میٹر طو یل لانگ ما رچ لا ہور کی جانب کیا تھا بلوچستان کو جانے والی کچی کینا ل راجن پور سے گزر رہی ہے جو تاحال مکمل نہ ہو سکی کچی کینا ل سے راجن پور کو پا نی نہیں دیا جائے گا لیکن پر ویز مشرف نے ڈیر ہ غازی خا ن کے جلسے میں راجن پو ر کے کسا نوں سے وعدہ کرتے ہو کہا تھا کہ کچی کینا ل سے راجن پور کو ایک ہز ار کیو سک پا نی دیا جا ئے گا اب اس کا پتہ نہیں ہے منصوبہ کے مکمل ہونے کے بعدہی پتہ چلے گا راجن پور میں ہر سال سیلا بی پا نی تبا ہی مچا تا ہے 2010ء کے ہولناک سیلاب کے بعد یہاں ہر سال سے مسلسل آرہا ہے ایک تو دریا سند ھ کی طر ف سے دوسرا کوہ سلیما ن کے پہاڑی سلسلے سے ان پہاڑی ندی نا لوں میں سالانہ ایک اندازے کے مطابق 4 لاکھ کیوسک پانی آتا ہے جو مختلف علاقوں میں تباہی مچا نے کے بعد دریاسندھ کے پانی میں شامل جا تا ہے جو کچے کے علاقے میں مز ید تبا ہی کا سبب بنتا ہے لیکن ایسی کوئی حکمت عملی نہیں بنا ئی گئی کہ اس برساتی پا نی کوکوہ سلیمان کے پہاڑوں میں ڈیم بنا کر سٹو ر کیا جا ئے سیا ست دانوں کی طرف ہر دفعہ ایسے وعدے سامنے آتے ہیں کہ ڈیم کا منصوبہ جلد شروع ہو گا لیکن ایسا عملی طور پر آج تک نہ ہو سکا اگر ڈیم بنا دیا جا تا ہے تو اس کے بہت زیادہ فا ئد ے ہیں۔

ایک تو سیلا ب کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکتا ہے دوسرا بارانی علاقہ جس کومقامی زبان میںپچادھ کہا جا تا ہے جس کی زمین سونا اگلتی ہے جہاں پر فصلیں بغیر کھاد کے پک جا تی ہے لیکن پانی نہ ہو نے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے جو ڈیم بنے کے بعد آباد ہو جا ئے گی راجن پور کی آبادی اور ان کی ضروریا ت وسائل کی بات کی جا ئے تو یہاں بھی صورت حال حیر ان کن ہیں 1998 کی مردم شماری میں راجن پور کی آبادی 16 لاکھ تھی جبکہ مو جودہ مر دم شماری کے نتا ئج ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں ایک اند از ے کے مطابق راجن پور کی مو جودہ آبا دی 30 لاکھ کے لگ بھگ ہوگی اتنی ساری آبادی کے لئے ہسپتا لوں اور تعلیمی اداروں کی صورت حا ل کچھ یوں ہے راجن پور میں ایک DHQ ہسپتال دو عدد THQ تحصیل روجھان ‘ تحصیل جا م پور ایک عدد سول ہسپتال شاہ والی جن میں سے دو ہسپتال عرب شہزادوں کے تعاون سے تعمیر کیے گئے ہیں اس کے علاوہ 6 عدد رولر ہیلتھ سنٹر 32 بیسک ہیلتھ یو نٹ ہیںاب DHQ ہسپتال میں 138 بستر THQ اور سول ہسپتال میں 40 بستر ہر ہسپتال میں جبکہ DHQ ہسپتال میں چند ایک سپشلسٹ ڈاکٹرز تعینا ت ہیں یہاں ماہر سرجن وگا ئنا کا لو جسٹ بھی تعینا ت نہیںہیںاکثر پیچید ڈلیوری کیسز کے لئے خوا تین کو ملتان اور بہا ولپو ر شفٹ کر نا پڑتا ہے جو لوگ علاج اور آپر یشن کے بھاری اخراجات برداشت کر سکتے ہیں وہ تو دوسرے شہر وں کے ہسپتا لوں میں مر یض کو لے جا تے ہیں باقی مر یض یہاں تڑپ تڑپ کر مر جا تے ہیں یہاں خواتین کی زچگی کے دوران امو ات کی شرح پورے پنجاب میں سے زیا دہ ہے باقی تما م چھوٹے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور سہو لیات کی تو ویسے ہی کمی ہے بیسک ہیلتھ یو نٹس میں ایمر جنسی صرف ڈلیوری کیس کی حد تک ہی محدود ہے جس کے لئے ایک بستر پر مشتمل ایمر جنسی بھی قا ئم تو ہے پر کا غذوں کی حد تک کبھی ان میں مریض کو داخل نہیں کیا گیا راجن پور کے اکثر علاقوں میں زیر زمین پانی کڑواور مضر صحت ہے جو پینے کے قابل نہیں ہے۔

خراب اور مضر صحت پا نی پینے کی وجہ سے اکثر لوگ گردے کی پتھر ی ‘ کالے یر کان ‘ معدے اور دیگر امر اض کا شکا ر ہیں DHQ ہسپتال میں ڈائیلسز کی صر ف پانچ مشینیںمو جو د ہیں جن میں سے چا ر سرکاری طورپر فراہم کی گئی ہیں اور ایک عطیہ شدہ ہے اس کے بر عکس رجسٹرڈ ڈائیلسز کر انے والے مر یضو ں کی تعداد 80 سے زیادہ ہے جن کو ہفتے میں دو مر تبہ ڈائیلسز کر وانا پڑتا ہے راجن پورمیں 500 بسترپر مشتمل ترکش ہسپتال تعمیر ہو نا تھاجس کا ابھی تک پی سی ون بھی تیار نہیں کیا گیا ہے ٹراما سنٹر کا منصوبہ منظوری کے باوجود کینسل ہو گیا صحت کی طر ح تعلیم کے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے جو ما یو س کن ہے یہاں شرح خواندگی انتہا ئی کم ہے جو پورے پنجاب میں آخری درجے پرہے پورے راجن پور میں اتنی آبادی ہو نے کے باوجود یہاں پر کسی بھی یو نیورسٹی کا کمپس نہیں ہے وزیر اعظم میاں محمد نواز شر یف کے پہلے دور حکو مت میں راجن پور کے لئے اسلا مک انٹر نیشنل یو نیو رسٹی کے قیا م کا منصوبہ منظور کیا گیا تھا جس کا سنگ بنیاد خود میاں محمد نو از شر یف نے بطور وزیر اعظم پاکستان نے 1992 میں رکھا تھااس منصوبے کے لئے مقامی زمینداروں نے کئی مر بعے زمین بھی عطیہ کر دی تھی لیکن اچا نک اس یو نیو رسٹی کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا جو راجن پور کی عوام کے ساتھ بہت بڑی زیا دتی کی گئی راجن پور میں اس وقت 2 پوسٹ گریجو یٹ کا لج ہیں جن میں صرف تین تین مختلف سبجیکٹ میں ایم اے کر وایا جا رہا ہے راجن پور پوسٹ گر یجو یٹ کالج میں انگلش ‘ اسلا میات ‘ ہسٹر ی اسی طرح جا م پورکے پوسٹ گریجو یٹ کا لج میں ارد و انگلش اور اکنا مکس کی کلاسز ہو تی ہیں پورے ضلع میں سات ڈگری کا لجز ہیں جن میں سے 2 بو ائز 5 گرلز ہیں اور مزید 2 زیر تعمیر ہیں تین کا مرس کا لج اور ایک ٹیکنا لو جی کالج جس میں تین سالہ پر وگرام کی بجا ئے صرف چھ چھ ما ہ کے شارٹ ڈپلومہ کورسز کروائے جا رہے ہیں پورے راجن پور میںکل 1166 سرکاری سکولز ہیں جن میں 998 پر ائمری سکول ہیں جو 653 بو ائز 345 گرلزپر مشتمل ہیں اسی طر ح 87 مڈل سکولز میں سے 34 گرلز ’53 بوائز ‘ 69 ہائی سکولز میں سے 45 بوائز’ 24 گرلز ’12 ہا ئر سکنڈری سکول جن میں سے 7 بوائز’ 5 گرلز ہیں ایک دانش سکول فاضل پور اور ایک سکول آف ایکسی لینس روجھان میں ہے۔

یہاں کی آبادی اور لو گوں کی معاشی صورت حا ل کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو صحت اور تعلیم کی سہولیات نہ ہو نے کے برابر ہیں یہاں مر یض کے علا ج کی طر ح بچوں کی تعلیم کے لئے بھی بڑے شہر وں کا رخ کر نا پڑتا ہے جس پر بھا ری آخراجات آتے ہیں مجبورً والد ین کو بچوں کے مستقبل کی خا طر اپنی جا ئیدایں فر وخت کرنا پڑتی ہیں لیکن جن کے پاس کسی قسم کی جا ئیدا د ہو گی تو وہ ہی بچوں کو پڑھا ئیں گے باقی بچارے بچے مڈل میٹرک بہت کم ایف اے اور بہت تھوڑے سے بی اے کر جاتے ہیں ایم اے تو قسمت والے ہی کر تے ہیںانجینئر اور ڈاکٹر کاتو یہاں کا عام با شندہ تصور ہی نہیںکر سکتا اکثر والدین کے خواب ادھو رے رہے جا تے ہیں راجن پور جہاں پورے ملک کی زرعی اور دیگر ضروریات پوری کر رہا ہے لیکن راجن پور کو اس کا حق نہیں دیا جا رہا ہے راجن پور کی مغربی سرحد پر بلوچستان کا ضلع ڈیرہ بگٹی جہاں سوئی کے مقا م سے قدرتی گیس پورے ملک تو سپلائی ہو تی ہے پر وہ گیس راجن پور کی عوام کے لئے مضر صحت ہے ہر دور حکومت میں سیا ست دان ووٹ لینے کے لئے فرضی سنگ بنیا د رکھتے ہیں لیکن اتنے سال گزارگئے ہیں نہ تو گیس کے پا ئپ نظر آئے ہیں اور نہ ہی گیس کی بومحسوس کی جا سکتی ہے یہاں کے مسائل اور پسماند گی پاکستان بننے سے پہلے جو تھے اب بھی اس میں کو ئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ اور زیادہ ہو گئے ہیں راجن پور کو کسی بھی دور حکومت میں بڑا منصوبہ نہیں دیا گیا جو علا قے کی تقدیر بدل دیتا اور جو منصوبے دیے بھی گئے وہ بھی خا موشی سے واپس لے لئے گئے یہاں کے سیا ست دان آج تک کوئی بڑا منصوبہ نہیں لا سکے او ر نہ اسمبلی میں راجن پور کی پسما ند گی اور وسائل کا مقدمہ لڑے ہیں راجن پورکے سیاست دانوں کو ہر دور حکو مت میں بڑے بڑے عہدے بھی ملے ہیں لیکن بات عہدوں تک محدود ہی رہی عوامی مسائل پر کسی نے غور ہی نہیں کیالیکن کوئی تو راجن پور کے ان وسائل اور مسائل کو دیکھے یہاںپسما ندگی اور وسائل کو دیکھتے ہوئے یہاں کی عوام کا مقدمہ سنے اور عوام کو انصا ف فراہم کرے لیکن ہر طر ف تواک شور برپا ہے کوئی تو ہماری تو کوئی سنے۔

Abdul Jabbar Khan

Abdul Jabbar Khan

تحریر : عبدالجبار خان دریشک