اپنے دیس میں اجنبی

Rohingya Muslims

Rohingya Muslims

تحریر: ابوبکر عزام
میرے پاس رہنے کے لئے اپنا گھر نہیں ہے۔ رضائن میں میری ماں اور رشتہ داروں کو قتل کر دیا گیا۔ گائوں کے لوگوں نے کہا کہ ہم ملائیشیا کی طرف روانہ ہو رہے ہیں تو میں نے بھی ان کے ساتھ آنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ الفاظ کشتی میں سوار ایک عورت کے تھے اور نہ جانے کتنے ہی ایسے لوگ ان کشتیوں میں سوار ہیں جن کے گھر نذر آتش کر دیئے گئے ہیں، خاندان کے خاندان زندہ جلا دیئے گئے ہیں اور یہ لوگ زندگی کی تلاش میں کشتیوں پر سوار بحیرہ انڈمان میں بھٹک رہے ہیں۔ خوراک اور صاف پانی کی کمی کے باعث یوں لگتا ہے جیسے ہڈیاں جلد پھاڑ کر باہر نکل آئیں گی اورحالت ایسی ہو چکی ہے کہ یہ انسان اب صرف انسان نما رہ گئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سینکڑوں کی تعداد میں لدے ہوئے، چیتھڑوں میں ملبوس یہ ادھ ننگے انسان، ان کے چہروں سے امید کے نقوش بھی مٹ چکے ہیں۔ کئی پانی میں چھلانگ لگا کر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ جب کبھی کسی امدادی ٹیم کی طرف سے کھانا پھینکا جاتا ہے تو ہاتھا پائی کے ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیںجیسے برسوں پرانی رقابتوں نے از سر نو جنم لے لیا ہو۔

یہ برما کے روہنگیا مسلم دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے محض مسلمان ہونے کی بناء پر ظلم و تشدد کی چکی میں پستے چلے آ رہے ہیں۔ برمی حکومت انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔برمی حکومت کا دعویٰ ہے کہ انگریزی سامراج سے پہلے روہنگیا نام کا کوئی لفظ ہی برما ڈکشنری میں شامل نہیں تھا اور یہ مسلمان برطانوی حکومت نے ہندوستان اور بنگلہ دیش سے لے کر یہاں بسائے تھے۔ اس لئے یہ بنگالی نسل سے تعلق رکھتے ہیں نہ کہ برما کی نسل سے ۔حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ روہنگیا مسلمان صدیوں سے برما کے علاقہ اراکان جو برما اور بنگلہ دیش کی سرحد پر واقع ہے میں رہ رہے ہیں اور اس وقت بھی تقریباً دس لاکھ مسلمان وہاں آباد ہیں۔ مسلمان تاجر یہاں آٹھویں صدی خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میںآئے تھے۔ جن کی تبلیغ اسلام اور اخلاقیات عالیہ سے متاثر ہو کر یہاں کی کثیر تعداد حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ یہاں تک کہ اراکان کے بادشاہ نے بھی اسلام قبول کرلیا اور پھر یہاں مسلمانوں کی حکومت ساڑھے تین صدیوں پر محیط رہی پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے کے بعد برما برطانوی سامراج کے تسلط میں چلا گیا برطانوی سامراج نے ہمیشہ کی طرح اپنی اسلام دشمنی دکھائی اور یہاں کے قدیم رہائشی بدھوئوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا اور یوں بدھوئوں اور مسلمانوں کے درمیان 28مارچ 1942 میں پہلے فساد جنم لیا جس میں صرف چالیس روز کے اندر اندر تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کاقتل عام ہوا برطانیہ کے جانے کے بعد بھی بدھوئوں کی اسلام دشمنی میں کوئی کمی نہ آئی اور گاہے بگاہے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ 1949ء سے اب تک مسلمانوں کے خلاف چودہ آپریشن ہو چکے ہیں۔

مارچ 1978 ء میں بدترین آپریشن ہوا جس میں درجنوں بستیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ بیس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا لاتعداد کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ کئی مساجدو مدارس مسمار کر دیئے گئے۔ قرآن حکیم کی بے حرمتی کی گئی۔ یوں تقریباً تین لاکھ مسلمان ظلم و ستم سے تنگ آکر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اسی طرح تقریباً دو لاکھ روہنگیا مسلمان مختلف قریبی ممالک ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور ایک کثیر تعداد میں ہمارے پاکستان میں پناہ گزیں ہیں۔

Rohingya Massacre

Rohingya Massacre

1982ء میں برمی حکومت نے شہریت کا قانون نافذکیا جس میںروہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا اور یوں یہ لوگ اپنے ہی ممالک میں اجنبی بن کر رہ گئے۔ جون2012ء میں ایک دفعہ پھر جنونی بدھوئوں نے اپنے گرو مہاتما گوتم بدھ کے فلسفہ عدم تشدد کو روندتے مسلمانوں پر قیامت صغری بپا کر دی اور جب ان لوگوں نے بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کی تو بنگلہ دیش نے بھی ٹھوکر مار کر ان کو واپس بھیج دیا۔ برمی فوج کی طرف سے شہریوں کے حقوق کی پامالی کا تذکرہ انسانی حقوق کی تنظیم نے جنوری2012ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں یوں کیاکہ وہاںبین الاقوامی قوانین کی قانون توڑے جا رہے ہیں بڑے پیمانے پر لوگوں کے خلاف بارودی سرنگوں کا استعمال ہوتا ہے۔ عورتوں اور دوشیزائوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے اور یوں وہ ایک اچھوت قوم بن چکے ہیں۔ کیمپوں میں رہائش پذیر مسلمانوں کی زندگی جانوروںسے بھی بدتر ہے اور ہر حکومت کی طرف سے کڑی پابندیاں عائد ہیں کہ کوئی روہنگیائی ملازمت نہیں کر سکتا۔ دو سے زیادہ بچے نہیں پید اکر سکتا۔ شادی کرنے کے لئے بھی حکومت کی مشروط اجازت ضروری ہے اور ایک شہر سے دوسرے شہر بغیر اجازت کے سفر بھی نہیں کر سکتا۔ اقوام متحدہ کے نمائندے مل لائبرلسن نے بیان دیا کہ برمی حکومت نے متاثرہ علاقوں کے لئے امدادی کاروائیوں پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ پچھلے ایک عشرے سے بدھ راہب بہت ہی زیادہ مسلمانوں کے خلاف سر گرم ہیں اور ان کو اس بات کا خدشہ ہے کہ مسلمان اگر دو سے زائد بچے پیدا کرتے ہیں تو ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کل کلاں ہمیں اقلیت میں بدل سکتی ہے سو ان کی خواہش یہ ہے کہ سارے روہنگیائی بنگلہ دیش چلے جائیں اور اب بدھوئوں نے پلے کارڈز اٹھاتے ہوئے مظاہرے کئے کہ “The World is not only for Muslims” “No to Rohingya” جس کے نتیجے میں حال ہی میں برما کے صدر تھین سین نے یہ بیان داغا ہے کہ روہنگیا مسلمان بنگالی ہیں اور ساتھ اس نے اقوام متحدہ سے کہا کہ اگر ان دس لاکھ مسلمانوں کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو ان کو دنیا کے کسی اور ملک میں بسا دیا جائے اور اسی طرح امن کی نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی نے بھی کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ مسلمان برمی نسل سے ہے یا نہیں۔پھرروہنگیا پولیٹیکل ایکٹو سٹ کی طرف سے محمد نور نے اپنے حق میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ہم برمی نہیں ہیں۔ ہماری ایک خود مختار ریاست اراکان ہے اور روہنگیا مسلم برماکی بجائے اراکان کے باشندے ہیں۔

اس طرح وہ اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے اپنی نسل کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں کہ

آج جب ان پر زمیں تنگ ہو چکی ہے تو ہزاروں مسلمان کشتیوںمیں سوار ہو کر ہمسایہ ممالک کا رخ کر ہے ہیں۔ سینکڑوں انسانی سمگلروں کے ہتھے بھی چڑھ گئے اور باقی بے یارومددگار ہمسایہ ممالک کے ساحلوں پر ٹھوکریں کھاتے پھرتے رہے۔ بنگلہ دیش نے وسائل کی کمی کا عذر تراش کر اپنی سرحد میں داخل ہونے سے منع کر دیا تو ملائیشیا نے کہا کہ ہم مزید مہاجروں کو پناہ نہیں دے سکتے۔

بقول غالب:
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیاکم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

United Nations

United Nations

اقوام متحدہ کے بھی وہ روایتی بیان جاری ہیں جنہیں سن سن کر ان الفاظ سے ہی نفرت ہونے لگی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ روہنگیا مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ہیں۔ سلامتی کونسل کا عملی طور پر کچھ نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سارا عالم کفر مسلمانوں کے خلاف آپس میں ملا ہوا ہے۔مسلم ممالک ایسی صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلم ممالک مل کر جلد ازجلد کشتیوں میں موجود مہاجروں کی آبادکاری کو یقینی پھرمسلم ممالک اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائیں تاکہ جلد از جلد ان مسلمانوں کو ان کے حقوق دلوائے جائیں کیونکہ

اِنّمَاالْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَة
مسلمان تو مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ، بقول اقبال
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے

تحریر: ابو بکر عزام
lmdeptt.ams@gmail.com