گائے نہیں انسان بچاو

Cow

Cow

تحریر : سعد فاروق
بھارت میں گائے انسان سے مقدس ہوگئی، بیمار یا لاش اٹھانے کیلئے ایمبولینس نہیں لیکن ریاست اترپردیش میں بیمار گائے کیلئے موبائیل ایمبولیس سروس شروع کر دی گئی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق  گائے کیلئے موبائیل ایمبولینس سروس کا افتتاح ریاستی نائب وزیراعلیٰ کیشاف پرساد موریا نے کیا۔ پرساد نے تکلیف میں مبتلا گائیں کو بچانے کیلئے نہ صرف ایمبولینس سروس کا افتتاح کیا بلکہ ٹول فری نمبر کا بھی اعلان کیا جس کے تحت کوئی بھی شہری اس نمبر پر کسی چارج کے بغیر ٹیلیفون کرسکتا ہے اور بیماری یا تکلیف میں مبتلا گائے کو اٹھانے کیلئے ایمبولینس طلب کر سکتا ہے۔
یہ سہولت اس گائے کے لیے جو جانور اور ایک انسان جیسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ایسے ہزار جانوروں سے بہتر ہے مگر بھارت میں اس حقیر جانور کو انسانوں پر ترجیع دی جاتی ہے بھارت ریاست اڑیسہ میں ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے امبولینس فراہم نہ کیے جانے پر غریب شوہر بیوی کی لاش کندھے پر اٹھا کر 12کلومیٹر پیدل چلتا رہا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارت میں ایک غریب شخص نے مبینہ طور پر ہسپتال سے ایمبولینس نہ ملنے پر اپنی بیوی کی لاش اٹھا کر 12 کلومیٹر تک پیدل سفر کیا۔

ریاست اڑیسہ کے قصبے بھوانی پٹنہ کے ضلعی ہسپتال میں دانا ماجھی کی 42 سالہ بیوی امنگ تپ دق سے چل بسی تھیں۔دانا ماجھی کا کہنا تھا کہ اس کا گاؤں 60 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور اس کے پاس گاڑی کرائے پر لینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔

اسی طرح کے ایک اور واقعہ بھارتی ریاست شمال مشرقی بہار کے ضلع پورنیہ میں ایک دیہاتی کواپنی اہلیہ کی میت گھر لے جانے کیلئے اسپتال والوں نے وین دینے سے انکار کردیاجس کے بعد وہ موٹر سائیکل پر اپنے گاؤں لے گیا۔60سالہ شنکر کی اہلیہ سوشیلا دیوی اسپتال میں علیل رہنے کے بعد چل بسی تھی۔ایمبولینس کیلئے اس نے اسپتال کے حکام سے رابطہ کیا جس پر اسے انکار کردیا گیا اور پھر وہ نعش ایک موٹر سائیکل پر رکھ کر آخری رسومات کیلئے گاؤں لے گیا۔اس نے بعد میں بتایا کہ میں نے ہر ممکن کوشش کرلی۔ ایمبولینس کا ڈرائیور ڈھائی ہزار روپے مانگ رہا تھاجو میں نہیں دے سکتا تھا۔
جبکہ بھارتی ریاست بہار میں ہی ایک اور انسانیت سوز واقعہ پیش آیا جہاں شہر کٹیہار میں ایک 21سالہ نوجوان کی لاش کیلئے اسپتال نے ایمبولینس دینے سے انکار کردیا جس کے بعد لواحقین نے ایک تھیلے میں لاش ڈال کر 2کلو میٹر کا سفر طے کیا۔ چنٹو ساہ نامی نوجوان 14روز قبل گنگا میں ڈوب کر ہلا ک ہوگیا تھا جس کے بعد اتوار کے روز اس کی لاش نکالی گئی تھی۔

لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے اسپتال پہنچایا گیا تاہم 24گھنٹے لاش رکھنے کے بعد اسپتال انتظامیہ نے لاش دوسرے اسپتال منتقل کرنے کا کہا جبکہ لواحقین کو ایمبولینس بھی فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
انسانیت کو شرمندہ کرنیوالا ایک اعر واقعہ اترپردیش میں پیش آیا جہاں پہلے تو باپ کو نوجوان بیٹے کی موت کا دھچکا لگا، پھر اسے لاش گھرلیجانے کیلیے ایمبولینس بھی فراہم نہیں کی گئی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اس افسوسناک واقعے کے روز ہی لکھن?و میں گائیوں کے لیے وی آئی پی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا گیا ہے۔
انسانیت کی تذلیل کا ایک اور واقعہ بھارتی ریاست اترپردیش میں پیش آیا جہاں صرف نچلی زات کا ہونے پر ڈاکٹروں نے ایمبولینس دینے سے انکارکردیا۔ مجبورا نچلی ذات کے ہندوشخص کوسائیکل پر بھتیجی کی لاش گھر سے اسپتال لانا پڑی۔

 ڈاکٹروں نیاس سیمطالبہ کیا تھا کہ کہ اگر ایمبولینس لینا ہے تو پیٹرول کے پیسے دینا ہوں گے۔جہاں انسانوں کے لیے ایمبولینسوں کی اشد ضرورت ہے وہاں انسانوں کی بجائے گائے کے لیے ایمبولینس چلائی جا رہی ہے ایمبولینس سروس گائے کے لیے فری جبکہ انسان کے لیے موجود ہی نہیں اگر ہے بھی تو مہنگے ترین چارجز پر تزلیل کرکے دی جاتی ہے بھارت دنیا کو وہ نام نہاد جمہوری ملک ہے جہاں انسان کی زندگی کی اہمیت گائے کے مقابلے میں زرہ برابر بھی نہیں ہے بھارت میں انسان مرتے ہیں تو مر جائیں مگر گائے کو کچھ نہ ہو انسان مر کر بھی سکون نہ پائیں مگر گائے کو مرنے کے بعد بھی عزت اخترام اور پروٹوکول سے دفنایا جائے بھارت کے جاہل اور دنیا کے بدترین مشرک غلیظ ہندو بھارت میں گائے کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں چند دن قبل 26 جون کو صرف شک کی بنیاد پر انڈیا کی ریاست جھارکھنڈ میں مردہ گائے ملنے پر فساد کے نتیجے میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ مجمعے کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔
یہ واقعہ گریڈیہ ضلع کے ہساگرست گاؤں میں پیش آیا جس کے بعد علاقے میں کشیدگی پر قابو پانے کے لیے سی آر پی ایف کے جوانوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔

جھارکھنڈ پولیس کے ترجمان آر کے ملک نے بتایا ‘اس واقعے میں زخمی عثمان انصاری کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ پولیس فائرنگ میں زخمی ہونے والا شخص کرشنا بھی ہسپتال میں داخل ہے۔ پولیس نے اس معاملے میں 11 افراد کو گرفتار کیا ہے۔”گائے کا گوشت کھانے پر مسلمان لڑکوں کو نشانہ بنایاپولیس کے ترجمان آر کے ملک نے بی بی سی کو بتایا ‘بیرا گاؤں کا رہائشی عثمان انصاری ڈیری چلانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کی ایک گائے کی بیماری سے موت ہو گئی تھی۔ عثمان نے مردہ جانوروں کو تلف کرنے والے ایک شخص سے بات کی۔ پیسے کے حوالے سے دونوں میں گرما گرمی ہو گئی تو عثمان نے خود ہی گائے کو تلف کر دیا۔ اسی دوران کسی نے گائے کا سر اور پاؤں کاٹ دیا۔’ مارکیٹ جاتے لوگوں نے سر کٹی گائے کی لاش دیکھی تو افواہ پھیلی کہ عثمان انصاری نے ہی گائے کو مارا ہے۔ اس کے بعد ہجوم نے عثمان کے گھر پر حملہ کر دیا۔’ پولیس کے مطابق’لاٹھی چارج اور فائرنگ کے نتیجے میں عثمان انصاری کے گھر کے لوگوں کو بچایا جا سکا۔ اس میں ایک شخص پاؤں پر گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔ اس دوران ہجوم نے عثمان انصاری کو بری طرح پیٹا۔’عثمان انصاری کے بیٹے سلیم نے بتایا کہ جب ہجوم نے ان کے مکان کو آگ لگائی تو اس وقت ان کی والدہ، بیوی سمیت خاندان کے تمام اراکین مکان کے اندر ہی تھے۔سلیم نے بتایا کہ اگر پولیس نہ آتی تو ان کے والد کو لوگ وہیں پر مار دیتے۔ ایسا ہی ایک او ر واقعہ 29 جون 2017 کو بھارتی ریاست آسام کے ضلع نوگاؤں میں پیش آیا جہاں انتہا پسند جنونی ہندوؤں نے گائے چوری کرنے کے الزام میں 2 مسلمان نوجوانوں کو تشدد کا نشانا بناکر مار ڈالا۔

پولیس کے مطابق لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں افراد گائے چوری کر کے اپنے ساتھ لے جا رہے تھے کہ راستے میں انتہا پسندوں نے پکڑ کر بد ترین تشدد کا نشانا بنایا، جب پولیس جب تک جائے وقوعہ پر پہنچی تو انتہا پسند جنونی دونوں افراد کو لاٹھیوں سے ماررہے تھے تاہم پولیس نے انتہا پسندوں کے چنگل سے نکال کر اسپتال منتقل کیا جہاں دونوں افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

تشدد کے نتیجے میں مارے جانے والے دونوں افراد کا تعلق مسلمان گھرانے سے تھا اور ان کی شناخت ابو حنیفہ اور راض الدن علی کے نام سے ہوئی ہے جب کہ ان کی عمر 20 سے 22 سال کے درمیان ہیں۔
ایک اور واقعہ بھارتی شہر میں گائے کا گوشت کھائے جانے کی افواہ پھیلی،انتہاپسندوں کا ہجوم اخلاق احمد کے گھر پہنچا اور 50 سالہ اخلاق احمد اور ان کے بیٹے کو گھسیٹ کر گھر سے باہر نکالا۔

درجنوں انتہا پسندوں نے باپ بیٹے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، محمد اخلاق زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے جبکہ بیٹا اسپتال میں زیرعلاج رہا?جبکہ بھارتی میڈیا ہی کہ مطابق اخلاق احمد کے گھر سے گائے نہیں بلکہ بکرے کا گوشت نکلا تھا مگر ان ہندو غنڈوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی اسی طرح کا واقعہ بھارتی مغربی ریاست راجھستان کے علاقے الوار کی ایک شاہراہ پر مویشیوں سے لدا ٹرک لے جانے والے 55 سالہ پہلو خان پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا۔

حملے سے زخمی ہونے والا پہلو خان دو روز تک زیرعلاج رہنے کے بعد ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

گزشتہ جمعے کے روز نئی دہلی میں ایک ٹرین میں سوار چار مسلمانوں مسافروں کو ایک ہجوم نے ”گائے کا گوشت کھانے والے” کہہ کر پیٹنا شروع کر دیا تھا، جس سے ایک جاں بحق جبکہ دو دیگر شدید زخمی ہو گئے تھے۔

مودی سرکار میں گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کی جان لینا معمول بن گیا، ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل کے بڑھتے واقعات کے خلاف دلی، ممبئی، کولکتہ سمیت بھارت کے طول وعرض میں سیکڑوں شہری سڑکوں پر نکل آئے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کیے جانے والے احتجاجی مارچ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے، جن میں بزرگ شہری اور بہت سے والدین بھی تھے، جو اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ ان افراد نے اپنے ہاتھوں میں شمعیں لیے امن کے لیے گیت بھی گائے۔

ممبئی میں بھی مظابرے میں بالی وڈ کے کئی اداکاروں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں عام شہریوں نے شرکت کی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ مسلمانوں اوراقلیتوں کا قتل عام قبول نہیں۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈزاٹھا رکھے تھے، جن پر لکھا تھا، ‘میرا نام لے کر نہیں’ اور گائے دہشت گردی بند کروکے نعرے درج تھے۔

جبکہ بھارت ہی میں جانور سے بھی کم تر حیثیت ملنے پر خواتین نے گائے کی شکل والے ماسک پہن کر انوکھا تصویری احتجاج ریکارڈ کرادیا۔ خواتین نے ایک تصویری پروجیکٹ کے تحت کئی مقامات پر مختلف کام کرتے ہوئے اپنے چہروں پر گائے کے ماسک پہن کر تصاویر کھنچوائیں اور سوال اٹھایا کہ کیا ان کی حیثیت جانور سے بھی کم ہے۔
23 سالہ نوجوان فوٹوگرافر سوجاترو گھوش کی کھینچی گئی یہ تصاویر پورے بھارت میں مشہور ہوگئیں جس پر انتہا پسند ہندوؤں نے انہیں دہلی کی جامع مسجد لے جاکر ذبح کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ان کا گوشت خواتین صحافیوں اور مصنفوں کو کھلا دیا جائے گا جب کہ پولیس میں بھی ان کے خلاف فسادات پھیلانے کی شکایات کی گئی ہیں، تاہم گھوش کا کہنا ہے کہ وہ ڈرنے والے نہیں اور اپنا کام جاری رکھیں گے۔
سوجاترو گھوش نے برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ بھارت میں جانور کی اہمیت انسان سے زیادہ ہے جس پر انہوں نے یہ منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ گائے کو کچھ ہوجائے تو فورا ہنگامہ مچ جاتا ہے لیکن عورت پر حملے ہوں اور اس کے ساتھ زیادتی کی جائے تو اسے انصاف نہیں ملتا۔

واضح رہے کہ بھارت کے اپنے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر 15 منٹ میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کا ایک واقعہ پیش آتا ہے جب کہ مودی حکومت کی گائے میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ اس نے گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

گائے ذبح کرنے کے محض شبہ میں انتہا پسند ہندو فوراً ہی مشتبہ افراد کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر جان سے مار دیتے ہیں، لیکن خواتین پر جنسی زیادتیوں کا مقدمہ برسوں لڑنا پڑتا ہے۔

ھارت میں گائے کے نام پر تشدد گزشتہ چند سالوں سے بہت عام ہوتا جارہا ہے اور اس میں مودی حکومت قائم ہونے کے بعد بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اس سلسلے میں ڈیٹا ویب سائٹ انڈیا اسپینڈ کی رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2017 کے درمیان گائے کے تحفظ کے نام پر ہونے والے تشدد کا 57 فیصد شکار مسلمان تھے۔ اس بیچ گائے سے منسلک تشدد میں مارے جانے والوں میں بھی 86 فیصد مسلمان ہیں۔

ان 8 سالوں میں ایسے 63 واقعات ہوئے جن میں 28 افراد کی جان چلی گئی۔ واضح رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ ہوئے ہیں ان کے علاوہ اور بھی بہت معاملات ہوں گے۔ لیکن اس رپورٹ میں جو سب سے تشویشناک بات کہی گئی وہ یہ ہے کہ گائے کے نام پر تشدد میں گزشتہ 3 سال یعنی مودی حکومت کے دور اقتدار میں بیتحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ گائے سے متعلق تشدد کے 97 فیصد معاملات مودی حکومت میں ہی انجام دیئے گئے ہیںگائے سے منسلک تشدد کے آدھے سے زیادہ کیس افواہوں کی وجہ سے ہوئے تھے۔

بھارت اقوام متحدہ کا ایک رکن ملک ہے مگر اقوام متحدہ کے کسی قانون کو نہیں مانتا ۔ کشمیر میں مظالم کی انتہا کر رہا ہے کیمیائی ہتھیار جن پر عالمی پابندیاں ہیں انکو چند مجاہدین کے خلاف استعمال کر رہا ہے لییکن اقوام متحدہ کا انسانی حقوق پتا نہیں کہاں سویا ہے میڈیا جس کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کے نام پر کھلی چھوٹ دی گئی ہے لیکن بھارت نے اس میڈیا کی آواز کو بھی دبایا ہوا ہے کشمیر میں کبھی اخبارات بند کر دیے جاتے ہیں تو کبھی مہینوں تک انٹرنیٹ بند کرکے مقبوضہ کشمیر کا دنیا سے رابطہ ختم کر دیا جاتا ہے تاکہ بھارتی مظالم دنیا تک نہ پہنچیں اور یہی حال بھارت میں ہے جہاں میڈیا حکومت کی مرضہ کے خلاف کچھ نہیں بھول سکتا مسلمانوں اور قلیتوں پر مظالم کو دبا دیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں انسان کے حقوق کے لیے تو ہزاروں لاکھوں تنظیمیں کام کرتی ہیں مگر ان سب واقعات کے باوجود وہ بھارت کے خلاف کیوں اقدامات نہیں کرتیں اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ کہاں سویا ہے؟؟ پوری دنیا میں کسی عیسائی کو کانٹا چبھنے پر شروع. کرنے والا یورپ اور انکا پوپ اس انسان کی تزلیل پر کیوں نہیں بولتا پاکستان میں اقلیت کے حقوق پر پوری دنیا میں نام نہاد پروپیگنڈا کرنے والی مومی بتی مافیا ان انسانیت سوز. واقعات پر کیوں خاموش ہے؟؟؟ دنیا بھر کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس بھارت میں ہندؤ کی اس غنڈہ گردی اور انسان کے قتل عام کو بینقاب کرنے والوں کے اکاونٹس کیوں بلاک کرتے ہیں آخر بھارت میں انسانیت کی قدر کب ہوگی؟؟ پوری دنیا بھارت پر دباو ڈال کر انسانوں کے قتل عام کو بند کروائے اور سارے بیگناہ انسانوں کے قاتلوں کو دردناک سزائیں دی جائیں عالمی عدالت بھارت میں انسانیت کو کے لیے ازخود نوٹس لے پوری دنیا بھارت کا سفارتی معاشی غرض ہر طرح کا بائیکاٹ کرئے ورنہ بھارت میں ہندو مشرک اس طرح انسانیت کی تزلیل کرتے رہیں گے بیگناہ انسانوں کو مارا جاتا رہے گا خدا را انسانیت کو بچاو

Saad Salaar

Saad Salaar

تحریر : سعد فاروق
+92 0321 10 65 575
saadifarooqpk@gmail.com