یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں

Punishment

Punishment

تحریر : بشریٰ نسیم

فراعین پاکستان کا سورج غروب ہورہاہے،بے شک اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے ۔کسی سیاسی جماعت کی رکن ہوں ناکسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہے ،ایک محب وطن پاکستانی ہوں اور عوام کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہوں جو تقریباًہر دور حکومت میں ہی ظلم ،جبر افلاس کی چکی میں پستے چلے آرہے ہیں ۔کوئی غرض نہیں کہ کون سی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے کیونکہ سب کے سب ایک جیسے ہیں ،آج تک کسی سیاسی جماعت نے پاکستان یاپاکستان کی غریب عوام کے لیے نہیں سوچا ،ہر صاحب اقتدار نے اپنے دور حکومت میں اپنی ہی تجوریاں بھری ہیں ۔پاکستان میں چند خاندانوں نے موروثی سیاست کرتے ہوئے جمہوریت کے نام پر غریبوں کا قتل عام کیا ہے ۔کیا جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ تم مٹھی بھر لوگ جب چاہوں لاکھوں غریبوں کو روٹی کا لارا لگا کر بھیڑ بکریوں کی طرح جدھر مرضی ہانک کر لے جائوں ، جمہوریت کا مطلب تو عوام کی خوشحالی اور فارغ البالی ہوا کرتا ہے ناکہ ظلم ،بھوک ،تشدد اور اجاراداری ؟بقول علامہ اقبال : جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔

افسوس صد افسوس کہ حکمران تو عوام کو انسان بھی تصور نہیں کرتے ،انہوں نے پاکستان کی افلاس زدہ عوام کو اپنا زرخرید غلام سمجھا ہوا ہے ”جبکہ مائوں نے اپنے بچوں کو آزاد جنا تھا”مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم نے کونسی آزادی حاصل کی ہے اور کن سے کی ہے آزادی کس چڑیا کا نام ہے ۔مانتی ہوں کہ ہم فرنگیوں ،ہندوئوں اور سکھوں سے تو آزاد ہو گئے مگر وڈیروں ،جاگیرداروں ،سرمایہ داروں کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غلام بن گئے ۔حضرت علیٰ کا فرمان ہے کہ کفرپر قائم معاشرہ تو چل سکتا ہے مگر نا انصافی پر قائم معاشرہ نہیں ۔کل تک ہماری مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ہندوئوں ،سکھوں سے اپنی عصمتیں بچاتی پھرتی تھیں وہ جب چاہتے تھے بیچ چوراہے مسلمان خواتین کی عزتیں تار تار کردیتے تھے کوئی پوچھنے والا نہ تھا اور آج یہ عوامی نمائندے اور ان کے پالتوں غنڈے جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں کسی غریب ماں وباپ کی بیٹی کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اپنی ہوس کا نشانہ بنادیتے ہیں اورکوئی پوچھنے والا بھی نہیں ،وڈیرے کے غنڈے جب چاہیں کسی غریب بیوہ کے گھر پر قبضہ کر لیں ،کسی ماں کے اکلوتے مزدور بیٹے کو(اپنی لڑائی میں) سرعام گولیوں سے بھون ڈالیں۔

ایسے ایک نہیں ہزاروں واقعات ہیں اور پاکستان کے اندر کسی مظلوم اور غریب کو انصاف نہیں ملتا ،البتہ قانون سارے غریب پر ہی نافذ ہوتے ہیں چند اخبارات کی شہہ سرخیاں ”شیخوپورہ ووٹ نہ دینے پر امیدوار کی مزدور کی بیٹی سے اجتماعی زیادتی ،مزاحمت پر تشدد گھر کا محاصرہ ”لاہور میں پندرہ سالہ لڑکی کا ریپ کرنے والا ایک مضبوط سیاسی جماعت کا کارکن ”رحیم یار خان ایم پی اے کا ساتھیوں سمیت حاملہ خاتون سے زیادتی ”فیصل آبادمیں ایک ایم این اے کے تینوں بیٹوں کی ایک کمسن لڑکی سے اجتماعی زیادتی ،بڑے میاں نے پولیس کو سختی سے ڈانٹ دیا کی خبردار جو ہمارے بندے کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کی”سرگودھا کے ایک سیاسی غنڈے کا آٹھویں جماعت کی طالبہ ارم سے زیادتی ،پولیس نے مظلوموں کو تھانے سے بھگا دیا”قصور میں ایک ایم پی اے بچوں سے بدفعلی کی وڈیوز عالمی مارکیٹ میں بیچتا رہا ”جہلم ایک صاحب اقتدار جماعت کا چیئرمین کا امیدوار پانچویں جماعت کی طالبہ سے جنسی زیادتی کرنے والے ملزم استاد کا وکیل بن گیا ”آج تک کسی ایسے مجرم کو سزا نہیں مل سکی کیونکہ ان لوگوں کو علم ہے کہ قانون انکے در کا غلام ہے اور تھانے انکی ذاتی عدالتیں ہیں جہاں پر یہ لوگ اپنی مرضی کے فیصلے صادر کرتے ہیں ۔جہاں قانون کے رکھوالے خود دلال ہوں وہاں انصاف جیسی چیز ناپید ہو جاتی ہے۔

ہر پانچ سال کے بعد یہ سیاسی ٹھگوں کو عوام کے مسائل یاد آجاتے ہیں ،خود کو عوام کے خادم اعلیٰ کہلوانے والوں تم کیا جانواس ملک کی غریب عوام کے مسائل تمہارے علاج ،تمہاری عیدیں ،شب راتیں،جائیدادیں باہر کے ممالک میں ،تمہاری خواتین کی ایک Lipstickکی قیمت ایک مزدور کی سال بھر کی کمائی سے زیادہ ،کیاتم سڑکوں او ررکشوں میں بچوں کو جنم دینے والی عورتوں کے درد کو جان سکتے ہو ؟جنہیں زندگی کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ،تم اس غریب بیوہ ماںکے درد کو سمجھ سکتے ہو جسے تمہارے سرکاری غنڈوںنے دہشت بناکر مار دیا تھا اس کا قصور یہ تھا کہ وہ سوچنے لگا تھا؟ایک مزدور کے اوقات کی تلخی کا تمہیں کیا علم کہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ کمانے والا کرایہ کا گھر،بچوں کی تعلیم، بجلی ،پانی،گیس کا بل ،بیماری ہمت ہے تو آکے دیکھ کہ تیری دور حکومت میں ایک باپ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی اولاد کواپنی قسم دیکر زہر کا پیالہ پلا دیتا ہے اور خود بھی پی لیتا ہے ۔ایک بیوہ جس کو ناحق زیادہ بجلی کا بل بھیجا جاتا ہے جووہ ادا نہیں کر پاتی اور خودکشی کر لیتی ہے ۔حاکم وقت کیا کیا لکھوں کیا کیا سنائوںآکر دیکھ کئی بیٹیاں جہیز کی لعنت نہ ہونے کی وجہ گھر کی دہلیز پر بوڑھی ہوچکی ہیں اور کچھ تو لقمہ اجل بن چکی ہیں۔

سن حاکم وقت تم تو ایک چھوٹی سی ریاست کے شہنشاہ بنے پھرتے ہو آدھی دنیا کا حاکم ،فاتح،مراد نبی ۖجس کو زندگی میں جنت کی بشارت نبیۖ نے دی حضرت عمر فاروق بائیس لاکھ مربہ میل پر حکومت اور حقوق رعایا کا خیال دیکھو آپ نے فرمایا کہ اگرمیری دور حکومت میں دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو عمر کو اس بھی حساب دینا ہوگا ۔ایک مرتبہ بیت المال کا اونٹ بھاگ گیا ۔سیدنا عمر فاروق آستین چڑھائے ادھر ادھر بھاگ ہیں عین اس وقت احنف بن قیس آپ سے ملنے کے لیے آئے دیکھا کہ سیدنا عمر آستین چڑھائے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں ۔سیدنا احنف کو دیکھ کر فرمایا ”آئو تم بھی اس میں میرا ساتھ دو بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے اور تمہیں پتہ ہے کی ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق ہے ”اتنے میں ایک شخص بولا ”امیر المومنین !آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں کسی غلام کو فرمائیے وہ ڈھونڈ لائے گا تو سید نا عمر نے فرمایا کہ ”مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہوسکتا ”اے حاکم وقت تم نے ملکی خزانہ اپنی جاگیرسمجھ کر خالی کیا ہے۔جب تم نے کہیں گزرنا ہوتا تھا تو کئی کئی گھنٹے تک سڑکیں بلاک کردی جاتیں تھیںاور ہیں مریض ایمبولنسز میں مر جاتے ہیں ۔آج جب تمہارے احتساب کا وقت آیا ہے تو تم کہتے ہو یہ زیادتی ہو رہی ہے ۔رب کا شکر کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ آپ سے حساب نہیں مانگا ۔۔۔۔یقینا اب عوامی عدل کی زنجیر چھنکے گی ۔۔یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں۔

 Bushra Naseem

Bushra Naseem

تحریر : بشریٰ نسیم