موجودہ حکومت، میٹھا جھوٹ اور حلقہ 150 کے مہر واجد

Sitting

Sitting

سنا ہے کہ دو کشتیوں کا مسافر کبھی پار نہیں لگتا۔ پھر یہ دو نشستوں کے گدی نشیں کِس طرح کم از کم ایک نشست سے آر پار ہو جاتے ہیں ۔پس ثابت ہوا کہ کشتی کے مسافرروں کو سیاست نہیں آتی ۔ویسے میری مخصوص قسم کی قلیل ترین سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں سماپائی کہ ایک ہی شخص کو ایک ہی حلقے سے دو دو نشستوں پر انویسمنٹ کرنے کا لائسنس کیسے تھما دیا جاتا ہے؟ کیا پاکستان اتنا ہی امیر و کبیر ملک ہے کہ ایک ہی الیکشن کو دو دو بار کروائے ؟ کبھی کِسی نے تخمینہ لگایا ہے کہ دوبارہ کروائے جانے والے ضمنی الیکشن میں امیدواروں کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی کروڑوں رو پیہ خرچ ہو تا ہے۔

کیا یہ کروڑوں، اربوں روپوں کو محفوظ کر کے پاکستان کے موجودہ تین بڑے مسائل انرجی کا بحران، پینے کے صاف پانی کی قلت اور ناخواندگی کی پیچیدگیوں کو کِسی حد تک کم نہیں کیا جا سکتا؟…ایک ہی شخص دو یا اِس سے زائد نشستوں سے الیکشن نما جنگ لڑتا ہے اور فتح سے ہمکنار بھی ہو جاتا ہے مگر…رکھنی تو اُسے ایک ہی کُرسی پڑتی ہے بقیہ کے کروڑوں کے اخراجات جو اُس نے اور اُس کے حواریوں نے الیکشن کمپین پر صرف کیے وہ بھلا کِس کھاتے میں گئے؟ اِس قسم کے مال ودولت کی کوئی اِنکوائری کیوں نہیں ہوتی؟

جبکہ یہ بات تو درست ہے کہ اِن سب نشستوں سے الیکشن جیتنے والا صرف ایک نشست رکھنے کے با وجود بھی چند ہی ماہ میں تمام نشستوں پر ہونے والے اخراجات اِسی ملک سے سود سمیت وصول کر لیتا ہے اور چودراہٹ بونس کے طور پر جھولی میں آ گرتی ہے۔ پاکستان میں اتنا فضول کا پیسہ گردش کر رہا ہے کہ کروڑوں کے اشتہارات، فلیکسیں اور بینر سڑکوں پر رُلتے پھررہے ہیں ،تو ہم کشکول لے کر سات سمندر دور کیوں جاتے ہیں؟ اپنے اُمراء و رائوسا کی منت سماجت کیوں نہیں کر لیتے جنہیں دو دو یا اِس سے زائد ٹکٹیں تھما دی جاتی ہیں۔

جِس ملک میں بم پروف محل تعمیر ہو رہے ہوں، سیسہ پلائی دیواریں تعمیر کی جارہی ہوں وہاں کیلئے بھیک مانگنا کیسا ہے؟یہ جو آئے دِن ہم کشکول لے کر مختلف دُوروں پر گامزن نظر آتے ہیں… ڈر ہے کہ کہی کو ئی صاحبِ استطاعت ملک پاکستان کو (حکومتِ پاکستان ) کی بجائے (ِ NGO پاکستان) کے القاب سے نہ نواز دے۔ مجھے عزیزِ برادرم دوست پپو فراڈی کی جانب سے ہوم ورق مِلا ہے کہ NGO اور پاکستانی حکومت میں فرق تلاش کریں…نیز دونوں کے کشکولوں کا ذکر نہیں آنا چاہیے۔

By-Election

By-Election

جزبات میں بہہ کر میں اپنے مقصد کی پٹری سے اُتر گیا تھا دراصل…سبزازار لاہور حلقہ 150 میں 22 اگست 2013 کو ہونے والے ضمنی الیکشن جِس میں 11مئی 2013کے عام انتخابات میں شکست کو ہنسی خوشی گلے لگانے والے PTI کے مہر واجدعظیم اور PML(N)کے میاں مرغوب احمد جو(موجودہ MNA مہر اشتیاق احمد کی جیت کر چھوڑی ہوئی سیٹ سے قسمت آما تھے) اکھاڑے میں مدِ مقابل ہوئے۔ حلقے کے 137 پولنگ اسٹیشنوں پر کاسٹ ہونے والے ووٹوں کا پلٹرا PTI کے مہر واجد عظیم کی جانب سجدہ ریز تھا۔ ہر پو لنگ اسٹیشن صاف اور شفاف گنتی کے بعد مہر واجدعظیم کو جیتنے کی مبارک باد دینے پر مجبور تھا اور باقاعدہ ڈھائی تین ہزار کی لیڈ بھی جا رہی تھی۔

رات گیارہ بجے کے دوران حلقہ 150 میں PTI کی جانب سے جشن کا سا سماں باند ھ دیا گیا تھا…یہاں تک کہ مہر واجدعظیم کے حامیوں نے مٹھائی کی دوکانوں کا رُخ کرنا شروع کردیا ،منہ میٹھے کرائے جانے لگے منچلے گرم جوشی سے مبارکباد کے جملوں کے ہمراہ بغل گیر ہوتے دکھائی دے رہے تھے،شُکرانے کے نوافِل ادا کیے جا چکے تھے۔ فیصلہ ہو چکا تھا 126 پولنگ اسٹیشنوں کا رزلٹ مہر واجدعظیم کے حق میں تھا آخری مراحل بھی سبز پرچی ہلا رہے تھے۔ گنتی کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اِس کام میں ماہر بھی گردانے جاتے ہیں ظاہر سی بات ہے غلطی کی کوئی گنجائش تھی ہی نہیں اگر ایسا ہوتا کہ گنتی کرنے والے ہی غلطیاں کرنے بیٹھ جائیں تو پاکستان کی عوام کو 19 کروڑ سے 19 لاکھ تک لایا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے اعدادو شمار کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

کوئی بھی ذمہ دار شخص ایسے حساس مقام اور قانون کی موجودگی میں غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کر ہی نہیں سکتا۔ تحریکِ انصاف کی جانب سے جشن منایا جا رہا تھا گلاب کے نرم و نازک سُرخ اور تازہ ترین پھولوں کے مہکتے ہوئے ہار مہر واجد عظیم کے گلے کی زینت بن کر فخر محسوس کر نے لگے، ڈھول کی تھاپ اور رقصِ بھنگڑا نے سب ہی غم بھُلا ڈالے تھے…مگر…آخر کیا ضرورت تھیں اتنا ہلہ گلہ کرنے کی ؟… میں تو کہتا ہوں کہ کِسی من جلے کی نظر ہی کھا گئی کی جیت کو …جشن کے عین عروج کے ٹھیک 15منٹ بعد ٹی وی پر اعلانِ عام کر دیا گیا کہ…”حلقہ 150 میں مسلم لیگ (ن) کے میاں مرغوب احمد 376 ووٹوں کی واضع برتری سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیت گئے ہیں۔

Sweets

Sweets

سارا سماں پتھر کا ہو چکا تھا… قہقہے حلق میں پھنس کر رہہ گئے …خوشیاں بے جان ہو گئی تھیں، یوں محسوس ہونے لگا جیسے ابھی ابھی کوئی گبر سنگ پوری بستی کو اُجاڑ کر سب کے منہ پر ایلفی کا چھڑکائو کر گیا ہے…مٹھائیاں کریلے محسوس ہونے لگے تھے کہ عین اِسی موقع پر ایک انتہائی معزز شخص نے اپنے لختِ جگر کو کال کی بیٹا !واجد صاحب کیلے پھولوں کا ہار تو لے آئو مگر اب…مٹھائی نہ لانا…رہنے دو … حکومتی اعلان نے منہ کا ذائقہ اِس قدر پھیکا کر دیا ہے کہ دنیا جہان کے رس گلے بھی اب مٹھاس پیدا نہیں کر پائیں گے۔ بیٹے نے بے کلی سے پوچھا ابو جی! آخر بات کیا ہوئی ہے کچھ بتائیں تو سہی ”والدِ محترم نے ایک سرد آہ بھری اور آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا…بیٹا ہم اندھوں کے شہر میں آئینہ ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے تھے…ہم بھول گئے تھے کہ ہماری حکومت تو ہے نہیں…تو ہم جیت کیسے سکتے ہیں

میاں صاحبان آپ سے باادب مودبانہ گزارش ہے کہ اگر ایک جیتی ہوئی سیٹ کو جیت دے ہی دی جاتی تو عزت مآب حکومتِ پاکستان کے عالیشان مرتبت میں کونسی کوئی کمی واقع ہوجانے والی تھی۔ مہر واجد عظیم سمیت تحریکِ انصاف کے ہزاروں کارکنان نے دوبارہ گنتی کیلئے درخواست مسترد ہونے پر لاہور میں جب پُرامن دھرنے کا اہتمام کیا تو دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے والے قانون نے مہر واجد عظیم سمیت PTI کے سینکڑوں مرد و خواتین کونہ صرف جبراً گرفتار کر لیا بلکہ تشدد بھی کیا۔ جلد ہی میاں شہباز شریف کی جانب سے تحریکِ انصاف کے کارکنان کی رہائی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔

یہی اعلان قبل از گرفتاری کِسی بھی عزتِ نفس کو مجروح کیے بنا پہلے بھی تو کیا جا سکتا تھا کہ یہ جمہوری حکومت ہے اور اظہارِ خیال اور پُر امن دھرنوں کا حق ہر شہری کو حاصل ہے اور یہ بات قانون کے علم میں بھی ہونی چاہیے۔ پہلے تو ریٹرننگ افسر نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے صاف انکار کر دیا…جبکہ الیکشن کمیشن کے علم میں تھاکہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کیلئے قوائد و ضوابط موجود ہیں۔با وثوق ذرائع کے مطابق ملک کے نامور سینئر ترین جج تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں پانچ رُکنی الیکشن کمیشن نے گزشتہ 22 اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی پی 150 کے ریٹرننگ افسر کے دوبارہ گنتی نہ کر وانے کے فیصلے کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔

ابھی ابھی ایک پیغام رساں سفید کبوتر پائوں میں دبا کر ایک رُکا یہاں پھینک گیا ہے جِس پر لکھا ہے کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد شفاف اعلان کردیا جائے گا”مجھے ڈر نہیں یقین ہے کہ جب تک تو مہر واجد عظیم کے سینکڑوں ووٹ موت کا ذائقہ چکھتے ہوئے اِس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے ہوں گے، یوں تحریکِ انصاف کے مزید ووٹوں کی نسل کشی کا بھی اندیشہ ہے …جبکہ دوسری جانب ووٹوں کی قلیل تعداد میں معجزانہ افزائشِ نسل کا امکان ہے عین ممکن ہے کہ سب ووٹ انڈے بچے دے ڈالیں۔ مگر رحم کی اُمید اپنی جگہ برقرار ہے۔

17مئی 2013 کو عزیزبرادرم رضا علی عابدی صاحب کا شائع ہونے والا کالم ”بلے والا کمرہ کونسا ہے؟”میں رضا علی عابدی صاحب کی تحریر کردہ ایک بات ضمنی الیکشن کے دوران بھی ذہن میں گردش کرتی رہی سوچا آپکے گوش گزار بھی کرتا چلوں…”یہ سادہ لوگ بلے والا کمرہ ڈھونڈتے رہ گئے اور انہیں تاکنے والے جہاں دیدہ لوگوں نے انہیں اُچک لیا۔ اِن کی پر چی کہاں گئی اور اِس پر چی پر نشان کہاں لگا،کِس نے لگایا، چار تہوں میں کِس نے لپیٹا ،بکسے میں کِس نے ڈالا، یہ لوگ دیکھتے ہی رہ گئے اور اُن کے ہاتھوں مات کھا گئے جنہوں نے اِدھر کا مال اُدھر کرنے میں عمریں لگا دیں تھیں”

Mohammad Ali Rana

Mohammad Ali Rana

تحریر: محمد علی رانا
0300-3535195