سائبر دہشت گردی یا حکومتی دفاعی ہتھیار

Terrorism

Terrorism

تحریر: شیخ خالد ذاہد
جہاں دنیا بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے وہیں تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک اس ششوپنج میں مبتلا ہیں کہ اس ترقی کو کیسے روکا جائے یا اسے ہضم کیا جائے۔۔۔۔۔ترقی کہ اثرات کسی نہ کسی طرح دنیا میں نافذ ہر معاشرتی عمل پر پڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔کسی نا کسی شکل میں یہ ترقی تیسری دنیا کہ ممالک میں داخل ہو رہی ہے۔۔۔۔۔دہشت گردی آج پوری دنیا میں ہورہی ہے یہ بھی ترقی کا ایک بیج تھا اور اب نشونما پا کر ایک تناور درخت بن چکا ہے ۔۔۔۔۔دہشت گردی بہت واضح شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے جس کا مقصد لوگوں کو قتل کرنا، دھماکے کرنا اور معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانا۔۔۔۔۔دہشت گردی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔پہلے پہل یہ صرف مسلم ممالک تک محدود تھی یا دہشت گردوں کہ ٹھیکانے مسلم ممالک تک محدود تھے ۔۔۔۔۔۔اب دہشت گرد، دہشت گردی لے کر آمریکہ اور یورپ میں اپنے جلوے دکھلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔دہشت گردی ایک ایسا “جن” بن چکا ہے جسکو قابو میں کرنے کیلئے ساری دنیا سر جوڑ کر بیٹھ گئی، عملی اقدامات کئے جو چاہ جیسا چاہ ویسا کیا مگر یہ جن ابھی تک بے قابو ہی ہے بلکہ اس کو قابو مین کرنے کی کوششوں میں معلوم نہیں کیا کچھ اور تباہ و برباد ہوگیا۔۔۔۔۔۔

دنیا، جہاں اس عملی دہشت گردی سے تاحال پریشان ہے وہیں دوسری طرف سماجی میڈیا نے اس دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا اور دنیا میں رونما ہونے والے ناانصافیوں کو منظرِ عام پر لانا شروع کیا۔۔۔۔۔آج دنیا کہ کسی کونے میں ہونے والی کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی خبروں کہ ذریعہ تو اتنی جلدی پتہ نہیں چل پاتی کیونکہ وہ اپنے ضابطہ اخلاق کہ پابند ہوتے ہیں اور اس کاروائی کہ بعد ہی کسی بھی خبر کو عوام الناس کیلئے شائع کرتے ہیں۔۔۔۔۔مگر سماجی میڈیا سے متعلق ویب سائٹس اگلے ہی لمحے میں اس واقعے کا ایسا چرچا کرتی ہیں کہ خبر پھر خبر نہیں رہتی۔۔۔۔۔اور سماجی میڈیا پر کوئی بھی خبر بھر پور حقیقت پر مبنی اور بلکل عینی شاہدین کی شائع کردہ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ابتداء میں تو اس طرح کی باتوں کو خبروں کو سماجی میڈیا پر شائع ہونے پر کسی قسم کی تنقید کا سامنا نہیں تھا۔۔۔۔۔مگر وقت کہ ساتھ ساتھ انسان کہ ذہن کو وسعت ملتی گئی ۔۔۔۔۔ وہ گھر بیٹھے یا چلتے الغرض کہیں بھی اسے وقت سے پیشتر ہی خبر میسر آنا شروع ہوگئی۔۔۔۔۔۔پھر بات اس سے اور آگے بڑھی اور ان سماجی ویب سائٹس کو سیاسی پارٹیوں نے استعمال کرنا شروع کیا اور اپنا منشور اپنی روزانہ کہ معاملات ان ویب سائٹس کہ ذریعہ سے عوام تک پہنچانے ۔۔۔۔۔اور بین الاقوامی سیاسی سرگرمیوں سے بھی عام آدمی کو آگاہی ملنا شروع ہوگئی۔۔۔۔۔یعنی دنیا کی سیاسی بالیدگی میں خاطر خواہ اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔۔۔۔۔

Social Websites

Social Websites

دہشت گردی سے سیاسی اور مذہبی ہم آہنگی کو ٹھیس پوہنچی۔۔۔۔۔۔بہت ساری ایسے معاملات ہوتے تھے جو راز بن رہتے ہے۔۔۔۔اب کوئی راز راز نہیں کہ۔۔۔۔دیگر ممالک کی عوام سماجی ویب سائٹس پر آمنے سامنے آگئے اور ایک دوسرے کو اچھا یا برا کہنا شروع کردیا۔۔۔۔۔کہیں معاملات سدھر گئے کہیں بگڑگئے۔۔۔۔۔ دنیا نے مختلف حصوں میں بٹنا شروع کردیا۔۔۔۔۔

آج مشرق اور مغرب کہ سیاستدان یا حکمران سماجی ویب سائٹس کہ ذریعے سیاسی سمتوں کا تعین کر لیتے ہیں۔۔۔۔ کافی حد تک عوامی ردِعمل سے شناسائی ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔ یہ ساری باتیں ایک تعلیم یافتہ اور باشعور معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔۔۔۔۔

پاکستان اور پاکستانی مزاج دنیا سے بہت ہٹ کر ہے ۔۔۔۔۔ یہاں چور کو چور کہنے والے کو سزا دے دی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ یہاں انصاف کرنے والے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں سیاست کرپٹ ترین لوگوں کا وطیرہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ایک پڑھا لکھا باشعور آدمی سیاست تو کیا سیاست کہ نام سے بھی دور بھاگتا ہے ۔۔۔۔۔ اسے اپنے ذمے کفالت کرنے والوں کا بہت خیال ہوتا ہے اور یہ انہیں حلال رزق کھلانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ وہ حقائق ہیں جو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔۔۔۔ چور کو کوئی چور بولنے کییلئے تیار نہیں ہے ۔۔۔۔۔ جبھی تو ہمارے ملک میں گھوم پھر کر کچھ مخصوص چہرے اقتدار پر ہنسی خوشی براجمان رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اب تو لگتا ہے کہ پاکستان کی عوام سے ہر طرح کہ ٹیکس کی مد میں وصول کیا گیا روپیہ پیسہ ان لوگوں کی ذاتی ملکیت ہے ۔۔۔۔۔۔ انہیں پاکستان اور پاکستانی سے کچھ نہیں لینا دینا نہیں کیوں کہ ان کا تعلق پاکستان کہ بیت المال سے ہے۔۔۔۔۔۔ہم پاکستانی بھی انتہائی درجے کہ بے حس لوگ ہیں ۔۔۔۔ چلتی پھرتی لاشیں ہیں جو ہر دفعہ وہیں سے ڈسے جاتے ہیں جہاں سے گزشتہ دہائیوں سے ڈسے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔

Cyber Terrorism

Cyber Terrorism

حکومت نے سائبر کرائم کا قانون بنا لیا ہے اور بہت سخت سزائیں بھی متعین کی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اب نشاندہی کرنے والے ، بولنے والے، لکھنے والے سب کہ سب مجرم نا ٹہر جائیں۔۔۔۔۔ جرم سے لتھڑے ہوئے اس معاشرے میں اب ان لوگوں کو بھی ملوث نا کر لیا جائے جو ظلم کو ظلم کہنے کی جرات کرتے ہیں۔۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مفاد پرستوں نے اپنے کارناموں پر اپنے مفادات پر انگلی اٹھانے والوں ڈرانے کیلئے یا انہیں حق گوئی سے روکنے کیلئے یہ قانون مرتب دیا ہے ۔۔۔۔ تاکہ ان کہ کالے کارنامے عوام تک نہ پہنچ سکیں۔۔۔۔ ہم “سول دکٹیٹرشپ” میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ یہاں جمھوریت مفادپرستی کہ نام پر قائم ہے ۔۔۔۔۔ سائبر کرائم کا قانون بنا کر شائد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم واقعی “تیسری دنیا” کی ریاست ہیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ سب باتیں اس قانون سے آزاد ہیں یا سچ اس قانون سے آزاد ہے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔ اس کہ اطلاق سے قبل اس قانون کو منظرِ عام پر لانا چاہیئے تھا اس پر عوامی ردِ عمل دیکھنا تھا۔۔۔۔ سماجی ویب سائٹس سے اس پر تبصرہ کروانا تھا۔۔۔۔۔ ٹیلی میڈیا اور پرنٹ پیڈیا والوں سے آراء لینی تھی۔۔۔۔۔ پھر ان کی روشنی میں کوئی فیصلہ ہوتا۔۔۔۔۔

تعلیم کا یہاں برا حال ہے، صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، ذرائع آمدورفت کا کوئی پرسانےِ حال نہیں۔۔۔۔۔ کراچی جیسا بین الاقوامی شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔گٹر ابل رہے ہیں گندا پانی جگہ جگہ کھڑا ہے ۔۔۔۔۔غور تو کیجئے ہمارے ملک کہ معزز سیاستدان پاکستان میں علاج کروانا تو درکنار ملکی امور کی مشاورت کیلئے بھی کبھی دبئی تو کبھی لندن کا رخ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ان ساری چیزوں پر زباں بندی کیلئے حکومتِ وقت نے یہ کارنامہ سر انجام دینے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔قوانین تو ہمارے ملک میں سارے ہی ہیں۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی قتل کرنے والا غیرت کا نام لے کر اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کو قتل کردیتا ہے۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی اربوں روپے کرپشن کر کہ لوگ معززین بنے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی معصوم بچوں کو اغواء و زیادتی کرنے والے سرِ عام ہنستے مسکراتے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی قانون کہ رکھوالے اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ان کہ اہل ِ خانہ سڑکوں پر اپنے حقوق کی بھیک مانگتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی جعلی ڈگریاں فروخت ہو رہی ہیں۔۔۔۔ مگر پھر بھی کوئی بڑی گاڑی والا کسی پیدل چلنے والے کو کچل رہا ہے ۔۔۔۔۔ قانون تو سارے ہیں مگر بالا دستی ہے۔۔۔۔۔

دعا کیجئے گا کہیں میرا یہ مضمون بھی اس نئے قانون کی زد میں نہ آجائے۔۔۔۔واضح ضابطہ اخلاق ہرادارے کا ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔ شتر بے مہار ہونے کی اجازت کسی کو نہیں۔۔۔۔ مگر سچ پر قدغن نہیں۔۔۔۔۔ ہم جیسے لوگ تو پھر گھٹن سے ہی فوت ہوجائنگے۔۔۔۔۔ خدا کرے کہ جیسا “میں” سوچ رہا ہوں ایسا بلکل نہ ہو۔۔۔۔ اللہ پاکستان کو اپنی آمان میں رکھے (آمین)۔۔۔۔۔۔پاکستان پائندہ باد

Khalid Zahid

Khalid Zahid

تحریر: شیخ خالد ذاہد