کھلی جنگ ہے اپنی

ظلمت کے نصابوں سے کھلی جنگ ہے اپنی
اِس شہر کی رسموں سے کھلی جنگ ہے اپنی

قبروں پہ غریبوں کی جو تعمیر ہوئے ہیں
ان اونچے مکانوں سے کھلی جنگ ہے اپنی

رکھتے ہیں جو تقدیر کے بہلاوے میں ہم کو
ان فلسفہ دانوں سے کھلی جنگ ہے اپنی

ہم لوگ ہیں طوفانِ بلا خیز کی مانند
دریا سے کناروں سے کھلی جنگ ہے اپنی

اِس عہدِ ملامت کے شب و روز کی سوگند
بے نور اجالوں سے کھلی جنگ ہے اپنی

Graves at poor

Graves at poor

تحریر: ساحل منیر