بیٹی کی عظمت اور نیا پاکستان

Women's  Abuse

Women’s Abuse

تحریر : راشد علی راشد اعوان
اسلام نے بیٹی کو اعلیٰ عزت اور مقام سرفراز کیا ہے وہ مقام و مرتبہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا اس رشتے کی فطری حساسیت اور قلبی عظمت کو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کیا ہے جس شخص کی دوبیٹیاں بالغ ہو جائیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اسے ضرور جنت میں داخل کروائیں گی دوسری روایت میں ہیسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیںکہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ مانگتے ہوئی آئی، اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ نہیں پایا، تو میں نے وہ کھجور اسے دیدی، اس عورت نے اس کھجور کو دونوں لڑکیوں میں بانٹ دیا اور خود کچھ نہیں کھایا، پھر کھڑی ہوئی اور چل دی۔

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ نے فرمایا کہ جو کوئی ان لڑکیوں کے سبب سے آزمائش میں ڈالا جائے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے آگ سے حجاب ہوں گی،عورت ماں ،بہن ،بیٹی اوربیوی کے روپ میں ہمیشہ ہی مسلمہ شان وشوکت کے ساتھ ممتاز رہی ہے سیدالانبیاء کونین کے تاج ور، سرورسروراں ،فخردوجہاں پیغمبر امن صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدہ شیمہ بنت حلیمہ سعدیہ تشریف لائیں تو آپ نے اپنی کملی والی چادر پر سیدہ شیمہ کو بیٹھایا اورخوب عزت وتکریم کی ،حاتم طائی کی بیٹی نے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والد کی سخاوت کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاتم طائی کی بیٹی کی خوب عزت وتحریم کی اور اس کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بیٹیوں کی ولادت پر فرمایا کرتے تھے کہ حضرات انبیاء علیہ السلام بیٹیوں کے باپ تھے بیٹیوں کی بجائے صرف بیٹوں کی ولادت پرمبارک باد دینا طریقہ جاہلیت ہے دونوں کی ولادت پر مبارک باددی جائے یا دونوں موقعوں پر خاموشی اختیار کی جائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کو ناپسند کرنے سے منع فرمایا او رانہیں پیار کرنے والیاں اور بیش قیمت قرار دیا۔ اور نیک بیٹیاں اپنے والدین کیلیے ثواب وامید میں بیٹوں سے بہتر ہوتی ہیں،مگرصد افسوس عرض پاک میں عورتوں کی عصمت دری معمول بن گئی ہے آئے روز اس سے متعلق خبریں میڈیا پر آتی رہتی ہیں جنہیں پڑھ کر دل قرب محسوس کرتا ہے سرشرم سے جھک جاتاہے ہم اپنے بچوں کے لیے کیسا پاکستان تعمیر کررہے ہیں ہمارے ادارے بااثر لوگوں کے سامنے کتنے کمزور ہیں انسانی زندگیاں تباہ کرنے والے کیسے ریاست کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں کیوں ایسے اندہناک واقعات ہمارے معاشرے میں بڑھتے جارہے ہیں۔

کیوں ہم اس ظلم کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے ؟ کیوں چند ووٹوں اوراقتدار کے لیے حکمران مافیا غریبوں کے عزتوں سے کھلواڑ کرتا ہے ؟ کیوں وڈیروں ،جاگیرداروں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آتا ؟ کہاں گئے انصاف کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے والے ؟ کیوں انصاف دہائیاں دینے والے ڈی جی خاں کی بچی کو انصاف فراہم نہیں کرپارہے ہیں ؟ ایک بچی کی ابرریزی کا مطلب ہے ساری قوم کی ابروریزی اوریہاں ابروریزی نیا پاکستان بنانے والے انصاف کے عویداروں کے جھنڈے تلے ہوئی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا اسی دن ریاست ان ایکشن ہوتی ملزمان کوکھلی کچہر ی میں عبرت کا نشان بنا دیتی ،اس سے زیادہ اورسنگین عصمت دری کیا ہوسکتی ہے کہ ایک گھنٹے تک انسان اورسماج دشمن حیوان انسانیت کی تذلیل کرتے رہیں اورریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے رہیں۔

خان صاحب مقتدر حکومت کے خلاف طویل دھرنا کرسکتے ہیں تو کیا ایک معصوم بچی کی داد رسی کی ہدایات جاری نہیں کرسکتے ؟اگر کرپشن پر میاں محمد نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کیا جاسکتاہے تو اس نااہلی اوربدانتظامی پر پرویز خٹک سے کیوں نہیں استعفی کا مطالبہ کیا جاسکتا ؟ نیاپاکستان لفظوں کے تیر چلانے سے نہیں عملی اقدامات کرنے سے بنتا ہے مذکورہ بے حسی نے خیبرپختون خواہ کی پولیس کی شفافیت کا پول ایسے کھول دیا جسے گزشتہ دنوں ہوئی بارش نے پشاور بلدیہ کا پول کھول دیا تھا چندلمحوں میں پشاور کی سڑکیں تالاب کی منظر پیش کرنے لگ گئیں تھیں۔

Rashid Ali

Rashid Ali

تحریر : راشد علی راشد اعوان