دن رات تڑپنے کا صلہ مانگ رہے ہیں
ہم جرمِ محبت کی سزا مانگ رہے ہیں
حالات کے اِس تِیرہ و تاریک سفر میں
ہم اپنے مقدر کی ضیاء مانگ رہے ہیں
ہم خاک بسر آج بھی صحرائے وفا میں
ہر اِک سے تیرے گھر کا پتا مانگ رہے ہیں
اِس شہرِ تماشا میں تمنائوں کے مارے
پتھر کے صنم! تجھ سے وفا مانگ رہے ہیں
تو لاکھ گریزاں ہو مگر تیرے لِئے ہم
گھر بار لُٹا کر بھی دعا مانگ رہے ہیں
اِس ہِجر و غم و درد کی دوپہر میں ساحل
خوابوں کی خیالوں کی رِدا مانگ رہے ہیں