فیصلے کی روح

Supreme Court

Supreme Court

تحریر : طارق حسین بٹ شان
پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی اکھاڑ بچھار کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے ہم اس طرح کے مناظر تواتر سے دیکھ رہے ہیں جس میں جمہوری حکومتوں کو بیک جنبشِ قلم فارغ کر دیا جاتا ہے۔کبھی کبھی فوجی جنتا مارشل لاء کے نفاذسے ایسا کرتی ہے اور کبھی کبھی اس مقدس فریضہ کی ادئیگی کیلئے عدلیہ کے کندھے استعمال کئے جاتے تھے ۔جے آئی ٹی کی غیر معمولی پھرتیوں کے بعد پورے ملک میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے بس اتمامِ حجت کیلئے باقی کاروائی کی جا رہی ہے۔ان کی بات سچ ثابت ہوئی اور عدالتی فیصلہ کے بعد میاں محمد نواز شریف کی وزارتِ عظمی کا وہ دور جو تیسری دفعہ شروع ہوا تھا ٢٨ جو لائی کو اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ اپوزیشن جماعتوں،میڈیا اور کچھ اداروں نے بڑی کوششیں کیں کہ میاں محمد نواز شریف عدالتی فیصلہ سے قبل مستعفی ہو جائیں لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ان کا استدلال تھا کہ عوام نے انھیں پانچ سالوں کیلئے منتخب کیا ہے لہذا وزارتِ عظمی عوام کی امانت ہے جس کی حفاظت کرنا میرآئینی فرض ہے اور اپنے اس فرض سے میں کسی صورت میں منہ نہیں موڑسکتا۔ان کے دل میں آئین کے تحفظ کا احساس جا گزین ہوچکا تھا اور یہ احساس انھیں جھکنے نہیں دے رہا تھا۔اگر وزیرِ اعظم بھی جھک جائے تو پھر کھڑا کون ہو گا ؟ انھوں نے پہلے دن ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ کسی کے دبائو اور حواہش کی وجہ سے مستعفی نہیں ہو ں گے۔ان کے اس فیصلہ پر بڑی تنقید ہوئی لیکن وہ ڈٹے رہے۔نہ اسمبلی تحلیل ہوئی اور نہ ہی میاں محمد نواز شریف نے استعفی پیش کیا۔ان کے اس فیصلہ نے عوام کے دلوں میں ان کی توقیر میں اضافہ کیااور انھیں ایک ایسے لیڈر کے روپ میں دیکھا جو جمہوریت کے ساتھ سچی وابستگی رکھتے ہیں۔کئی لوگوں کو شک تھا کہ میاں محمد نواز شریف زیادہ دنوں تک ریاستی دبائو کا سامنا نہیں کر سکیں گے لیکن انھوں نے اپنے سارے ناقدین کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ۔کیا ان کا فیصلہ دانشمندانہ تھا،یا ہوش و خرد سے عاری فیصلہ تھ، یا جمہوریت پسندانہ فیصلہ تھا ؟ اس بات کا فیصلہ تو تاریخ کو کرنا ہے لہذا ہم سب کوتاریخ کے فیصلہ کا انتظار کرنا چائیے کیونکہ اتنے بڑے فیصلوں کے اثرات ایک دن میں سامنے نہیں آیا کرتے ۔،۔

عجیب اتفاق ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے فیصلوں کا وہ ماضی میں بھی شکار رہے ہیں۔ کبھی غلام اسحاق خان اور کبھی جنرل پرویز مشرف ان کی راہوں میں کانٹے بچھاتے رہے ہیں ۔وہ ایک جھوٹے طیارہ سازش کیس میں جلا وطن بھی ہوئے تھے لیکن انھوں نے جلاطنی کا زہر بھی بڑے حوصلے سے پیاتھا۔ عوام انھیں بار بار منتخب کرتے رہے اور اپنے اعتماد اور محبت سے نوازتے رہے لہذا اپنی جلا وطنی میں انھوں نے خود سے یہی عہد کیا تھا کہ اب عوامی میندیٹ پر ڈاکہ زنی کی اجازت نہیں دی جا ئیگی ۔اب جلا وطنی نہیں ہو گی اوراب سمجھوتہ نہیں ہو گا۔وہ تیسری دفعہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تو اس کی کوئی تو وجہ ہو گی ؟ اس بات پر غوکرنا ہو گا کہ عوام انھیں بار بار کیوں منتخب کرتے ہیں؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی کرپشن کے الزامات میں برخاست ہوئی تھی ، ان پر بھی کرپشن کے الزامات لگے تھے اور وہ جلا وطن بھی ہوئی تھیں ۔انھوں نے بھی جلا وطنی میں جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھائی تھی۔اپنی اس قسم کے ایفا کیلئے پاکستان لوٹیں تو عوام نے انھیں اپنی پلکوں پر بٹھا یا۔میاں محمد نواز شریف بھی جمہوریت کے تحفظ کیلئے ڈٹ گئے تو انھیں بھی راستے کی دیوار سمجھا گیا ۔ کوئی دیوار بن جائے تو پھراسے گرایا جانا ضروری ہو جاتا ہے اور میاں محمد نواز شریف کے ساتھ یہی ہوا ہے۔

ایک کا خون تو راولپنڈی کی سڑکوں پر بے دردی سے بہایا گیا جبکہ دوسرے کو نااہل قرار دے کر اپنی انا کی تسکین کی گئی ۔بھر پور عوای مینڈیٹ نے میاں محمد نواز شریف کو حوصلہ دیا اور وہ جمہوریت کے فروغ اور ترویج کیلئے کھڑے ہو گئے جسے نظر انداز کرنا اسٹیبلشمنٹ کیلئے ممکن نہیں تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں میاں محمد نواز شریف کا تجربہ سب سے زیادہ ہے کیونکہ کسی زمانے میں وہ خود بھی اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تصور ہوتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پی پی پی کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے لہذا انھیں بخوبی علم ہے کہ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کس طرح نمٹنا ہے؟کیا وہ پی پی پی کی طرح جمہوریت کیلئے قربانیاں دے سکیں گے ؟ کیا وہ پاکستان میں جمہوریت کو نئی شناخت عطا کرسکیں گے ؟کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کا بہادری سے سامنا کرسکیں گے؟ ۔میثاقِ جمہوریت کے بعدمحترمہ بے نظیر بھٹو کی سنگت نے میاں محمد نواقز شریف کوجمہوریت کا قائل کر دیا تھا جس سے وہ اب کسی حال میں بھی دست کش ہونے کو تیار نہیں ۔ پی پی پی کو اس وقت ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو جمہوری سفر کو یقینی بنانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو للکارے اور یہ کام میاں محمد نواز شریف کے سوا کوئی دوسرا لیڈر سرانجام نہیں دے سکتا۔پی پی پی کو اس وقت جمہوریت کے تسسل کی فکر دامن گیر ہے کیونکہ عدالتی فیصلے نے بہت سے نئے سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔،۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ٢٨ جولائی کو متفقہ فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نا اہل ہو گئے ہیں لہذا وہ اپنے عہدے سے سبکدو ش ہو جائیں ۔الیکشن کمیشن نے اس حکم کی روشنی میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے جس کے نتیجے میں وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔پاناما لیکس کا مقدمہ ایک سال سے زائد عرصہ چلا ہے اور اس میں بے شمار اتڑ چڑھائو بھی دیکھنے کو ملے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ کرپشن ، لوٹ مار اور لندن فلیٹس سے شروع ہو نے والا یہ مقدمہ دبئی کے اقامہ پر جا کر اختتام پذیر ہوا ہے گویا پاکستان میں وزیرِ اعظم اب غیر ملکی اقاموں اور ویز وں پر فارغ کئے جایا کریں گئے۔معین قریشی جو کہ ١٩٩٣ میں پاکستان کے نگران وزیرِ زعظم بنے تھے ان کے ہاس تو پاکستانی پاسپورٹ بھی نہیں تھا ۔نگران وزیرِ اعظم بننے کے بعد ان کا پاسپورٹ بنوایا گیا تھا۔وہ امریکی شہری تھے او پاکستانی آئین دہری شہریت کے حامل کسی بھی فرد کو وزارت اور ریاستی عہدہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس وقت اس قانون کو پسِ پشت ڈال کر انھیں نگران وزیرِ اعظم بنایا گیا کیونکہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ایسا ہی چاہتی تھی لہذا یہ طے ہو گیا کہ ہوگا وہی جو اسٹیبلشمنٹ چاہے گی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بات اسٹیبلشمنٹ چاہے اور پاکستان میں ویسا نہ ہو؟ اب کی بار فیصلہ یہی ہوا تھا کہ میاں محمد نواز شریف کو فارغ کرنا ہے لہذا بڑی جستجو کے بعد اقامہ کا بہانہ ہاتھ آ گیا اور فلیٹوں کے گورکھ دھندوں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔یاد رہے کہ پاناما لیکس کے بعدسپریم کورٹ میں جو مقدمہ شروع ہوا تھا اس میں لندن فلیٹس،آف شور کمپنیوں،پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر اور عدالت میں دئیے گئے بیان میں تضاد اور کروڑوں روپے کے تحائف کے الزامات شامل تھے لیکن دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ فیصلے میں ان میں سے کسی چیز کو بنیاد نہیں بنایا گیا بلکہ دبئی کی اس کمپنی کا ذکر ہے جس کے مالک حسین نواز تھے اور جس کے اعزازی چیرمین میاں محمد نواز شریف تھے۔

میاں محمد نواز شریف چونکہ اس کمپنی کے مالک نہیں تھے لہذا اس کمپنی کو اپنے اثاثہ جات میں شامل نہیں کر سکتے تھے اور ان کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے طے شدہ تنخواہ ٠٠٠،١٠ درہم کی رقم کبھی بھی وصول نہیںکی کیونکہ تنخواہ لینا مقصود نہیں تھا ۔جے آئی ٹی نے کمپنی کے اقامے اور تنخواہ کو بنیاد بنا کر وزیرِ اعظم کو نا اہل کرنے کی درخواست کی تھی۔عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ تنخواہ جو وزیرِ اعظم نے اپنے بیٹے سے وصول نہیں کی ان کا اثاثہ ہے اور انھیں اپنے اثاثہ جات میں ظاہر کرنا چائیے تھا۔انھوں نے چونکہ اسے ظاہر نہیں کیا اس لئے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔تنخواہ وصول نہ کرنا بھی جرم بن سکتا ہے یہ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلہ کا بنیادی نقطہ ہے جس کی روح بالکل مردہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل ٦٢ کا اطلاق کر کے میاں محمد نواز شریف کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔کیا وزیرِ اعظم ایسے نا اہل ہوتا ہے؟کیا دنیا کے کسی ملک میں کبھی کسی وزیرِ اعظم کو اس طرح سبکدوش کیا گیا ہے؟۔،۔

ان کا موازنہ ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ تو نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دونوں کی فہم و فراست اور اندازِ سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اس کے باوجود دونوں میں جمہوریت کے فروغ اوربقا کا جذبہ ایک ہے ۔ میرے کئی جیالے دوست اس موازنے پر مجھ سے خفا بھی ہو جائیں گے لیکن اگر وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سو چنے کی کوشش کریں گے تو وہ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ وہ نواز شریف جو اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ تھا دم توڑ چکا ہے اور اب اس کی جگہ ایک ایسا نواز شریف کھڑا ہے جس کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔

Tariq Hussain Butt Shan

Tariq Hussain Butt Shan

تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال