فیصلے کہاں ہوتے ہیں

Supreme Court

Supreme Court

تحریر:امتیاز علی شاکر
فیصلے کہاں ہوتے ہیں ؟اس سوال کاایک سادہ سا جواب یہ ہے کہ فیصلے جہاں مرضی ہوں بس ہوں ہمارے پسندیدہ،18اگست 2016ء کو وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف کا کہنا تھا کہ عوام ملکی خوشحالی اورترقی چاہتے ہیں، 3 سال میں ملک کے ہرشعبے میں بہتری آئی ہے،احتجاجی سیاست کرنیوالے عناصر ہوش کے ناخن لیں، جمہوریت میں فیصلے سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں، یہ وقت منفی سیاست کا نہیںاتحاداوراتفاق کاہے، جھوٹوں کا راستہ روکنا قوم کا فرض ہے،وزیراعلی نے کہا کہ بعض سیاسی عناصرذاتی مفادات کی خاطرترقی کا سفر روکنے کے درپے ہیں جب کہ عوام ایسے عناصر کو پہلے بھی مسترد کرچکے ہیں اورآ ئندہ بھی کریں گے،15ستمبر 2017ء ایک بار پھر وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ جمہوریت میں فیصلے سڑکوں پر نہیںپارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔

پاکستانی عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کے قائل ہیں،انہوں نے جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ جمہوریت کا عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد جمہوری اقدار اور روایات کو پائیدار بنیادوں پر فروغ دینا ہے، جمہوریت، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی ،عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کا نام ہے،انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جمہوریت پر یقین رکھتی ہے”وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے بیانات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ وہ عدلیہ اورمیڈیاکی آزادی کے حامی اورعوام کی جانب سے پھرامید ہیں،ایک بات کی سمجھ نہیں آئی جب جمہوریت میں فیصلے سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں توپھراُن کے بڑے بھائی سابق وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے عدلیہ کے فیصلے کیخلاف ریلی کیوں نکالی؟چلوکوئی بات نہیں ریلی نکل ہی گئی تھی تو میاں شہبازشریف نے سڑکوں پر فیصلے کرنے کی کوشش میں شمولیت کیوں کی؟عدلیہ اورمیڈیاکی آزادی کے حامی وزیراعلی کی موجودگی میں نہ عدلیہ آزادنظرآتی ہے نہ ہی میڈیا،میڈیاکی آزادی کااندازہ اس بات سے باخوبی لگایاجاسکتاہے کہ این اے 120کی الیکشن مہم کی کوریج ن لیگ یاپھرپی ٹی آئی کے حصے میں ہی آتی ہے،نئی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں عوام کی شرکت کہیں زیادہ ہے ،میڈیاوہاں موجودبھی ہوتاہے اور مکمل رپورٹ کرتابھی نظر آتاہے پھربھی کوئی چینل یااخبار خبرکوہواتک نہیں لگنے دیتا،کیااسی کو میڈیاکی آزادی تصور کیاجائے؟عدلیہ کی آزادی کاحال بھی سب کے سامنے ہے،15ستمبر2017ء کی ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب کام کرتا تو کیس سپریم کورٹ میں نہ آتا، ہر جج نے اپنے فیصلے میں اس کا ذکر بھی کیا ہے اور عدالت نے فیصلے میں لکھاہے، سب جانتے ہیں کہ کیا کیا ہوا دہرانا نہیں چاہتے۔

ماضی میں نواز شریف کے مقدمات آتے رہے ہیں اور نوازشریف کو ریلیف بھی اسی عدالت میں ملتا رہا، یہ نہ کہا جائے کہ سپریم کورٹ مدعی بن گئی ہے، جب بھی نوازشریف کے حقوق متاثرہوئے عدالت نے ریسکیو کیا، ٹرائل میں زیادتی ہوئی تو سپریم کورٹ ریسکیوکرے گی ہم ہرشہری کے حقوق کاتحفظ کریں گے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے نواز شریف اور اسحاق ڈار کے وکلاء سے کہا ہے کہ عدالت کے خلاف ہرزہ سرائی کی مہم کی آپ کے موکل (اسحاق ڈار) اور خواجہ حارث کے موکل (نواز شریف) قیادت کر رہے ہیں جس میں عدالت کو نشانہ بنایا گیا ہے آپ اس بارے شکایت نہ کریں جو جیسا کر تا ہے ویسا ہی بھرتا ہے، ہم پریقین کریں سڑکوں پر نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس د یتے ہوئے کہا ہے کہ قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے، تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا کہ نواز شریف تنخواہ نہیں لیں گے جبکہ معاہدے میں یہ ضرور تھا کہ نواز شریف کو 10ہزار درہم تنخواہ ملتی ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا،دستاویزات کہتی ہیں کہ تنخواہ وصول کی گئی اور نواز شریف کے نام پر ایک ذیلی اکاونٹ کھولا گیا، اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف کے کیپٹل ایف زیڈ ای اکاونٹ میں اگست 2013 ء کو تنخواہ بھی آئی، اس بارے میں جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 9میں ریکارڈ موجودہے، دستاویزات کے مطابق طریقہ کار کے تحت اکاونٹ کھولا گیا،عدلیہ نے بھی کہہ دیاعدالتوں پریقین کریں سڑکوں پرنہیں اور میاں شہبازشریف نے بھی کہہ دیاکہ فیصلے سڑکوں پرنہیں پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں،اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ کیس میں دائرکی گئیں تمام نظرثانی اپیلیں مستردکردی ہیں،جوبات وزیراعلیٰ پنجاب نے کہی وہی سپریم کے جسٹس صاحبان نے کہی،جج صاحب نے فرمایاکہ نیب کام کرتا تو کیس سپریم کورٹ میں نہ آتا،اس بات کاکیا مطلب نکالاجائے کہ کیس سپریم کورٹ آنے سے قبل جونیب کام نہیں کررہاتھاسارا کیس کام نہ کرنے والے نیب کے حوالے کردیاگیا؟میڈیانے بھی عدلیہ اورحکمران دونوں کے بیانات بریکنگ نیوزبناکرپیش کئے ،اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ عوام کس بات کو سچ سمجھیں اورکس کوجھوٹ،نظرثانی اپیلیں مستردہوچکیں،احتساب عدالت نے شریف فیملی کوطلب کررکھاہے ،میاں شہبازشریف آج بھی وزیراعلی پنجاب ہیں اور میاں نوازشریف سابق وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف کے بڑے بھائی ہیں ،آنے والاوقت بتائے گاکہ میاں شہبازشریف جمہوریت کاساتھ دیتے ہیں یاسڑکوں پربڑے بھائی کے ساتھ نکلتے ہیں ؟میرے عزیزہم وطنوں ہمیشہ کی طرح وقت کا انتطار کروفیصلہ کچھ بھی ہو،جمہوریت فیصلے پارلیمنٹ میں کرے یانااہل سیاست دان سڑکوں پرتماشہ لگائیں عوام ،عوام ہی رہیں گے ،وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف نے کہاتھا عوام ملکی خوشحالی اورترقی چاہتے ہیں،عوام سچ میں ملکی ترقی و خوشحالی دیکھناچاہتے ہیں توپھر ووٹ دیتے وقت یہ ضرورسوچیں کہ کھلی آنکھوں سے دیکھ کرزہرنہیں کھایاجاتا،ایک ہی طریقے سے باربار خودکشی کی کوشش نہیں کی جاتی ،آنکھیں کھولیں نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی بھی،ووٹ اپنے ضمیرکی آوازپراہل نمائندے کے حق میں کاسٹ کریں۔

یہ مت سوچیں کہ جسے آپ ووٹ ڈال رہے ہیںوہ جیتے گایاہارے گا،آپ بس یہ سوچیں کہ آپ کاووٹ کسی ظالم،چور،ڈاکو،دہشتگردیاکسی ملک دشمن کے حق میں کاسٹ نہ ہو،سب نے اپنی اپنی کہہ دی سوجاتے جاتے راقم بھی اپنے دل کی کہناچاہتاہے،فیصلے کہاں ہوتے ہیں ؟فیصلے سڑکوں پرہوتے ہیں نہ پارلیمنٹ میں اورنہ ہی عدالتوں میں۔ فیصلے تو میراسوہنارب رحمان فرماتاہے،آپ سوچیں کہ ایک بندہ تیسری مرتبہ پاکستان کاوزیراعظم ہو،ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کاسربراہ ہو،چھوٹابھائی ملک کے سب سے بڑے صوبے کاوزیراعلیٰ ہواورعدالتیں نااہل کر دیں ؟

Imtiaz ali shakir

Imtiaz ali shakir

تحریر:امتیاز علی شاکر
imtiazali470@gmail.com
03134237099