کہیں شکست موروثی سیاست کو تو نہیں ہوئی

Elections

Elections

تحریر : شیخ خالد زاہد
پاکستان پر تو جیسے موروثی سیاست دانوں نے اپنا قبضہ ہی جما لیا ہے، خصوصی طور پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جو خصوصی طور پر صوبائی سطح پر مضبوط گرفت رکھتی ہیں جن میں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختون خوا میں عوامی نیشل پارٹی انتہائی قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ جماعتیں اپنے وجود میں آنے سے لیکر آج تک مخصوص خاندانوں کی میراث ہیں۔ پاکستان کو اس موروثیت سے نجات دلانے کیلئے بہت ضروری ہے کہ کوئی سیاسی جماعت جو فقط منشور کی بنیاد پر کھڑی ہو اور اس منشور کی مکمل بحالی کیلئے اپنی تمام تر کوششیں وقف کردے اور عوام کو اپنے کردار اور عمل سے یقین دلایا جائے کہ نا تو کسی قسم کے مفادات کی سیاست ہو گی اور نا ہی موروثیت کو پنپنے کی اجازت دی جائے گی۔ اگر غور کیا جائے تو اسلام کے دئیے گئے نظام حکومت میں بھی موروثیت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جس سے اس بات کو اخذ کرلینا چاہئے کہ موروثیت کسی بھی طرح سے جمہوریت کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔

عوام جماعتوں کے منشور پر لبیک کہتی ہے مگر دل کے کسی نا کسی خانے میں اس خاندانی نظام کا جماعتوں پر حاوی ہونا کھٹکتا رہتا ہے۔ جب سے اس بات کا چرچا کیا جانے لگا ہے تو ظاہر سی بات ہے بہت سے کارکنان اپنی جماعتوں میں موروثیت کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں۔ یہ موروثیت بھی جمہوریت کی راہ کی بہت بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو کتنی ہی عوام میں مقبول ہو اگر جمہوری طرز پر کام کرے گی تو دیر پا اور پائیدار ہوگی جسکی وجہ اس جماعت کا نظم و نسق کسی ایک گھر سے نہیں چل رہا ہو گا۔ جماعت اسلامی اور زبوں حالی کا شکار ایم کیوایم وہ جماعتیں ہیں جہاں موروثیت کی کوئی جگہ نہیں رہی ہے۔ دراصل جمہوریت کا راگ آلاپنے والے موروثیت کے چکر سے نکلتے نہیں ہیں جسکی وجہ سے جمہوریت اپنے قدم جما نہیں پاتی ۔ یہاں تک کے ملک کو خاندانی نظام کے طور پر بھی چلانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔

اس مضمون کا نام دوسروں کو نصیحت خود کو فصیحت بھی رکھا جاسکتا تھا ۔ اگر اس حلقے کا تھوڑا سا تاریخی پس منظر دیکھیں تو یہاں ووٹرز کا اوسط تناسب پچاس سے ساٹھ فیصد رہا ہے جوکہ کافی مثبت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس حلقے کی ایک خاص بات اور بھی ہے کہ یہاں دو امیدواروں کے درمیان ہی مقابلہ رہا ہے ، ان دو کے علاوہ کوئی ووٹوں کی گنتی کی دوڑ میں دس ہزاربھی شائد پار نہیں کر پائے ہیں۔ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں اس حلقے سے نواز لیگ کامیاب ہوئی مگر ۲۰۱۵ میں کامیاب امیدوار کی نااہلی کے سبب یہاں سے پی ٹی آئی نے میدان مارا اور ۲۰۱۷ میں جہانگیر ترین صاحب کی نااہلی کے باعث ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر یہ نشست نواز لیگ کے پاس چلی گئی ۔ مختصراً یہ کہ کہانی جہاں سے ۲۰۱۵ میں جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پہنچ گئی ہے۔ گو کہ مقابلہ دونوں جماعتوں نے خوب کیا اور ایک بار پھر دو جماعتوں میں ہی مقابلہ ہوا۔ نواز لیگ تقریباً ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوتی چلی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کی شکست کا تجزیہ کرنے سے سب سے اہم جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ آپ اپنے کہے کو کر کے دیکھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، لوگ آپ کے پیچھے آپکے عزم اور حوصلے کی وجہ سے چل رہے ہیں اور خان صاحب اگر آپ نے بھی وہی سب کچھ کرنا ہے جو یہ عوام پچھلے ۷۰ سالوں سے بھگتی آرہی ہے تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ایک طرف موروثی سیاست کا خاتمہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے ، جس پر وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر تابڑتوڑ حملے کرتے رہے ہیں اور بلند و بانگ دعوے کرتے رہے ہیں۔ پاکستا ن تحریک انصاف کی اس نشست پر شکست کوئی خاص بات نہیں ہے ، جبکہ خاص بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں شکست جبکہ اگلے انتخابات سر پر کھڑے ہیں اہمیت رکھتی ہے۔

جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین نے اپنے سماجی میڈیا پر یہ پیغام پی ٹی آئی کے کسی حد تک مایوس کارکنوں کیلئے جاری کیا ہے کہ عقل مند اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کو اس بات کا احساس ہوگیا ہو کہ ان کا یہ فیصلہ کہ یہاں سے جہانگیر ترین کے صاحبزادے کو ضمنی انتخابات میں لڑایا جانا قطعی درست ثابت نہیں ہوا ہے۔

اگر ضمنی انتخابات میں وہ اپنے کسی اور مقامی قدرے کم حیثیت والے امیدوار کو کھڑا کر دیتے تو شائد نتیجہ اس کے برعکس ہونے کیساتھ ساتھ ووٹوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔ پھر جب جنرل انتخابات کا وقت آتا تو باہمی صلاح مشورے سے لودھراں کی انتظامیہ سے علی ترین کا نام ڈلوا کر اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا آنے والے انتخابات کی تیاری میں اس بات کو کس حد تک اہمیت دی جائے گی کے پی ٹی آئی کے امیدوار بہت سوچ بچار کے ساتھ باہمی ہم آہنگی سے نامزد کئے جائینگے۔

اس شکست سے ایک اور خوش فہمی جنم لیتی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی عوام میں روشنی کی کرن جھلکنا شروع ہوئی ہے، شعور نے باہیں پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ یہ ان خوش فہمیوں کی بنیاد ہی ہے کہ عوام نے اس بات کاعندیہ دیا ہے کہ اب جو کہے گا اور نہیں کرے گا تو وہ اسے اپنا قیمتی ووٹ نہیں دینگے۔ جب تک اس موروثی سیاست کو ، اس خاص و عام کے فرق کو اور انسان کو انسان ہونے کا حق نہیں مل جاتا اب ایسے حیران کن کام ہوتے چلے جائینگے۔ انشاء اللہ

Sh. Khalid Zahid

Sh. Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد زاہد