سیلاب سے تباہ و برباد کشمیر کسی کو یاد ہے؟

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر: علی عمران شاہین

وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو بھر پور انداز میں پیش کیا تو بھارت میں بھونچال سا آ گیا۔جناب وزیر اعظم کا یہ اقدام لائق تحسین ہے لیکن کیا ہمیں اس بات کا پتہ ہے کہ وہ کشمیری کہ جن کے حق خوارادیت کی کی بات جناب نواز شریف نے کہ وہ آج کس حال میں ہیں؟کیا ہم جانتے ہیں کہ پاکستان اور عالم اسلام کے دکھ درد اور غم میں مر مٹنے والے کشمیری قیامت خیز وقت سے گزر رہے ہیں۔سیلاب نے مقبوضہ کشمیر کے جنوبی حصے کو اتنا تباہ کر دیا ہے کہ یہ خطہ مکمل طور پر پتھر کے دور میں جا چکا ہے۔بھارت نے تو کشمیریوں اس حال میں بھی بدترین حال میں بھی انہیں یک و تنہا چھوڑ رکھا ہے کہ آزادی کے مطالبے سے کبھی پیچھے نہ ہٹنے والے کشمیر شاید ایسے ہی مر کھپ جائیں اور اس کی ان سے جان چھوٹ جائے۔بھارت تو خیر اول دن سے کشمیروں کا بدترین جانی دشمن ہے

افسوس تو اہل پاکستان اور اہل اسلام پرہے کہ جنہیں علم ہی نہیں کشمیریوں پر کیا گزری اور اب بھی کیا گزر رہی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں بدترین سیلاب آئے تیسرا چوتھاہفتہ ہے لیکن بھارتی حکومت نے لاکھوں کشمیریوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے کیلئے چھوڑ رکھا ہے۔ بھارت نے سیلاب کے فوری بعد اپنی ساری توجہ ملک بھر سے آئے ہندو سیاحوں کو بچانے پر مرکوز رکھی۔ سیاحوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نکال کر مفت ہوائی سفر کی سہولت بھی دی گئی اور مصیبت زدہ کشمیر سے نکال لیا گیا

جس کے بعد باقی ماندہ عام ہندوئوں کو بچایا گیا۔ اس وقت بھارتی امدادی کام کی ساری توجہ مقبوضہ جموں پر ہے کیونکہ وہاں ہندوئوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث مقبوضہ کشمیر میں 5 لاکھ سے زائد گھر ناقابل رہائش چکے ہیں۔5ہزار رتعلیمی ادارے بھی ملیا میٹ ہو ئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی تمام فصلیں اور تجارتی کاروبار زندگی بھی مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ صرف سرینگر اور اس کے گردونواح میں دس ہزار سے زائد مکان اور گھر تباہ ہوئے ہیں ۔

دارالحکومت سرینگر کے اکثر حصوں میں آج بھی پانی کھڑا ہے، ہزاروں جانوروں کے مرنے سے ہر طرف بدبو اور تعفن پھیلا ہوا ہے۔ سیلاب کے باعث ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہیں جس سے اب بڑے پیمانے پر وبائی امراض کے پھوٹنے کے خطرات ہیں۔ اگر بیماریاں پھوٹ پڑیں تو وادی کے تمام ہسپتال سیلاب کے باعث ناقابل استعمال اور مشینری ناکارہ ہونے کے باعث معمولی علاج معالجہ بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔

اس وقت عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ عید کی آمد آمد ہے لیکن مقبوضہ کشمیر آہوں اور سسکیوں میں ڈوبا ہو ا ہے جہاں ہر طرف لوگ ٹوٹے گھروں، ملبے کے ڈھیروں اور جگہ جگہ جمع پانی پر زندگی بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ تباہی کا اندازہ صرف ایک ضلع پلوامہ کی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں 233 دیہات میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ پانپور تحصیل کو چھوڑ کر سارے ضلع میں ابتدائی تخمینے کے مطابق 51170 رہائشی مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ ضلع میں 25 رابطہ پلوں کے بہہ جانے کے علاوہ 131 سڑکوں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ 162 واٹر سپلائی اسکیمیں بھی تباہ ہو گئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کا 80 فیصد حصہ مکمل تباہ ہو چکا ہے۔

قہر زدہ سیلاب کی زد میں آ کر سرینگر کے تجارتی مرکز لالچوک اور اس سے ملحقہ علاقوں کے سبھی بازاروں میں پانی بھر آنے سے تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق شہر سرینگر کے تباہ حال بازاروں میں متاثرہ دکانوں کی تعداد 10000 سے زائد ہے ۔ سرینگر میں دفاتر، گودام اور دیگر اشیاء کے ذخیرے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سرینگر کے علاوہ دیگر اضلاع جن میں کولگام اسلام آباد، پلوامہ، بڈگام، گاندربل، بانڈی پورہ، سوپور، بارہمولہ وغیرہ شامل ہیں، میں تجارت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی آمدن کے سب سے بڑے ذریعے یعنی پھلوں کی تجارت کو 40 ارب کا نقصان ہوا ہے۔

Flood

Flood

پھلوں کی فصلیں ہمیشہ اس طرح بھی برباد ہوئی ہیں کہ بے پناہ اور تیز پانی پھر سینکڑوں کنال اراضی پر واقع میوہ باغات کو پانی نے اپنے ساتھ بہا لیا۔جھیل ڈل کہ حالت یہ ہے کہ سینکڑو ں بوٹ ہائو س او ر بے شمار چھوٹی بڑی کشتیوں کا نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔سیلاب کے باعث مقبوضہ وادی میں پٹرول اور گیس کی جو قلت پیدا ہو گئی ہے وہ ابھی تین ماہ تک برقرار رہے گی کیونکہ پانپور میں پٹرول اور گیس ریفلنگ پلانٹ ناکارہ ہو چکے ہیں اور ان کی بحالی میں تین ماہ لگیں گے جبکہ 14 ہزار گیس سلنڈر اور سینکڑوں ڈرم سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے۔

مزید مشکل یہ ہے کہ ہندوستان پٹرولیم کے حکام نے تمام تیل پمپ مالکان کو ہدایات دی ہیں کہ وہ پٹرول کی چور بازاری روکنے کیلئے کنستروں میں تیل فروخت کرنے سے گریز کریں اور اگر ایسی کوئی شکایت ملی تو مذکورہ پٹرول پمپ کا لائسنس منسوخ کیا جائے گا۔ سیلاب کے وقت پلانٹ میں 1400 میٹرک ٹن گیس ٹینکوں میں موجود تھی جبکہ ہزاروں لیٹر پٹرول و ڈیزل بھی وہاں ذخیرہ کیا گیا تھا لیکن مشینری ناکارہ ہونے کی وجہ سے اس کی سلنڈر اور ٹینکروں میں بھرائی ناممکن ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے سب سے بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ سرینگر کے بیشتر علاقوں تک ابھی تک سامان خوراک کی سپلائی بحال نہیں ہو سکی ہے۔ سب سے ز یادہ متاثرہ شہری علاقوں میں اشیائے خورونوش بھی آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ سرینگر ہی نہیں سارے جنوبی کشمیر کے سبھی علاقوں میں غذائی اجناس کی شدید قلت ہے۔

بھارت نے ان تمام مصیبتوں میں کشمیریوں کو مکمل تنہا چھوڑ ا تو کشمیریوں کا اپنی مدد آپ کے تحت مصیبت زدگان کے لئے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر ریلیف آپریشن جاری ہے۔ مقامی لوگوں کی طرف سے سیلاب زدہ علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے متاثرین کیلئے سرینگر سمیت وادی کے متعدد مقامات پر ریلیف کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں متاثرین کیلئے کھانے پینے کے علاوہ رہائش کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔ ان امدادی کیمپوں میں طبی امداد، بچوں کیلئے دودھ اور جوس فراہم کیا جا رہا ہے۔

عام لوگوں کی جانب سے حتی الوسع مصیبت زدگان میں امدادی اشیاء تقسیم کی جا رہی ہیں۔ حریت رہنما اور ان کے کارکن بھی امداد و بحالی کے کام میں ہر جگہ مصروف ہیں۔ سیلاب سے کسی حد تک بچ جانے والے شمالی کشمیر کے لوگ بھی خود آگے بڑھ کر جنوبی کشمیر کے لوگوں کی مدد کیلئے ہر ممکن طور پرآگے آ رہے ہیں اور امداد پہنچا رہے ہیں۔ کشمیریوں کے اس باہمی ا تحاد و محبت نے بی بی سی جیسے اداروں کوبھی متاثر کر دیا جو ان کی تعریف و توصیف پر مجبور ہو گئے۔ بھارت نے جب کشمیریوں کو تنہا چھوڑا تو کشمیریوں کی بھارت سے نفرت بھی اب دوچند ہے۔

کشمیری سخت مشکل میں ہونے کے باوجود بھارت کیخلاف مظاہرے اور بھارتی ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں پر پتھرائو کر رہے ہیں تو یہ لوگ ہمیشہ کی طرح آج بھی پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں اگر حکومت پاکستان اور عوام پاکستان نے ان کشمیریوں کا ہاتھ تھام لیا تو کشمیر کو پاکستان سے کوئی علیحدہ نہیں کر سکے گا اور اگر ہماری صورتحال بھی یہی رہی کہ ہم اپنے اقتدار کو بچانے یا حاصل کرنے کیلئے ذاتی سیاست کرتے رہے، جیسا کہ کسی اقتدار کے کھیل میںمست کسی پاکستانی سیاستدان نے کشمیر اور مصیبت زدہ کشمیریوں کا نام نہیں لیا۔

اگران کشمیریوں کی مدد کے لئے کوئی آواز بلند کی اور کچھ عملی قدم کا اعلان کیا تو وہ جماعة الدعوة اور اس کے امیر حافظ محمد سعید ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر صرف جماعة الدعوة کا مسئلہ ہے ۔آخر کیوں ساری پارلیمنٹ خاموش ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس غفلت کے منفی نتائج بھی سب سے زیادہ پاکستان کو ہی بھگتنا ہوں گے۔ اگر ہم ان مشکل ترین لمحات میں کشمیریوں کے کام آئیں گے تو کل یہ ہمارے ہی فائدہ میں ہو گا اور یہی ہم نے فیصلہ کرنا ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین