مان گئے سرکار

Protocol

Protocol

تحریر : روہیل اکبر

مرکز سمیت تمام صوبوں میں منتخب جمہوری حکومتیں اپنے اختتام کو پہنچ گئی اور اب نگران حکومتوں نے بھی سابقہ حکومتوں کے طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا کام شروع کردی ہے وہی نوابی ٹھاٹھ باٹھ اور پروٹوکول پورے عروج پر ہے نہ صرف موجودہ نگرانوں کا بلکہ پچھلے شاہی خاندان کا بھی اسی طرح شب شبا جاری ہے نیب کو مطلوب شخص ذلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں موجود تھا مگر وہ عمران خان کے دوست ہیں اس لیے انہیں باہر جانے کی اجازت مل گئی جبکہ کچھ افراد کو اس لسٹ سے نام نکلوانے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں گذشتہ روز مریم نواز شریف اپنے کاغذات نامزدگی کے سلسلہ میں ریٹرنگ آفیسر کے سامنے پیش ہوئی تو پوری عدالت کو خالی کروالیا گیا کتوں سے تلاشی لی گئی یہاں تک کہ جج کی کرسی کو بھی کتا سونگتا رہامان لیا سرکار ہے کہ آپ کی موجودہ نگران حکومت خواتین کا بہت زیادہ احترام کرتی ہے اور انہیں پورا شاہی پروٹوکول بھی دیتی ہے تو کیا اس ملک میں بسنے والی باقی سب خواتین کو بھی آپ ایسے ہی عزت و احترام دیتے ہیں مگر نہیں سرکار کیونکہ ایک طرف شاہی خاندان کے فرد ہیں تو دوسری طرف عام انسان ہیں۔

ایک طرف حمزہ شہباز شریف جیسا شہزادہ ہے جسے آپ بچانے کے لیے اپنے چیمبر میں بلا کر خاموشی سے فیصلہ صادر کر دیتے ہیں تو دوسری طرف حصول انصاف کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے والے مظلومین ہیں کیا جیلوں میں بند ایسے ہی بہت سے غریب اور بے یارو مدد گار افراد کے لیے بھی آپ کا ایسا ہی جذبہ ہے رہی بات نگران حکومت کی انہوں نے بھی پروٹوکول سے پورا پورا فائدہ اٹھانا شروع کردی ہے نگران حکومت سے پہلے بھی جب خادم اعلی صاحب کی شاہی سواری کسی جگہ سے گذرتی تھی تو لاہور کی سڑکیں بلاک کردی جاتی تھیں اوراب بھی وہی صورتحال جاری ہے حالانکہ عسکری صاحب وزارت اعلی سے پہلے اکیلے ہی آتے جاتے تھے کوئی انہیں آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا اب انہیں ایسی کون سی مشکلات درپیش ہیں کہ خادم اعلی کی طرح لاہور کی ٹریفک جام کردی جاتی ہے ایک روزہ اوپر سے گرمی میں شہری جب شاہی سواری کو جاتے دیکھتے ہیں پھر انکے دل پر کیا گذرتی ہوگی ملک میں ہر سیاستدان کو الیکشن کا بخار چڑھا ہوا ہے ایک طرف کاغذات کی جانچ پڑتال کا کام جاری ہے تو دوسری طرف کروڑوں روپے کی ڈیفالٹرز کی طویل فہرست برآمد ہورہی ہے اور ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو پچھلی حکومت میں موج مستی کرتے رہے۔

ایک طرف ملک میں اربوں اورکروڑوں روپے لوٹنے والے کھلے عام حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں تو دوسری طرف پیٹ کی آگ بجھانے والے بکری چور کو عوام عبرت کا نشانہ بنا دیتے ہیں چند دن پہلے کا ذکر ہے خانیوال میں ایک نوجوان کو بکری چوری کے شعبہ میں وہاں کے شہریوں ڈنڈوں سوٹو ں اور کلہاڑیوں سے جیتے جاگتے شخص کو چند منٹوں میں موت کی نیند سلا دیا اب ذرا ہمارا الیمہ بھی ملاحظہ فرمالیں کہ فرض کرلیں کہ اس شخص نے بکری چوری کی بھی تھی تو کسی ایک شخص کی مگر اسے جان سے مارنے کے لیے پورا محلہ اکٹھا ہوگیا اور جو شخص پورے ملک کو لوٹ کر کھا گیا ہمیں غربت کے ناسور اور قرضوں کی دلدل میں ڈبو گیا اسے ہم اور ہمارے نگران پورا پورا پروٹوکول دیتے ہیں ہماری عوام ان کے ساتھ تصویریں اتارنے میں ،ہاتھ ملانے میں ذلیل خوار ہوتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات اچھی خاصی مار کٹائی بھی ہوتی ہے جس طرح ہمارے سدا بہار حکمران اقتدار میں آکر لوٹ مار کے نئے نئے قصے رقم کرتے ہی اسی طرح ہمارے بعض ووٹر بھی الیکشن کا بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں کیونکہ بولی لگتی ہے نوٹ ملتے ہیں اور غریب کے گھر میں بھی چند روز کے لیے خوشحالی آجاتی ہے اور تو اور ہماری سرکار بھی ان سب کی سہولت کار بن جاتی ہے تاکہ پیسے والے ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جائیں انہیں بھی نوازیں اور خود بھی عیش کریں اور ہماری یہ حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک ہم خود نہیں بدلیں گے۔

اب ذکر کچھ گذرنے والی پچھلی یادوں کا *ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شاہ رخ جتوئی ہوا کرتا تھا*دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مصطفٰی کانجو ہوتا تھا*تیسری دفعہ کی بات ہے کہ ایک ڈاکٹر عاصم ہوا کرتا تھا*چوتھی دفعہ کا ذکر ہے کہ آیان علی ہوا کرتی تھی*پانچویں دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ڈی ایچ اے سٹی ہوا کرتا تھا*ساتوی دفعہ کا ذکر ہے ایک مونث الہی ہوا کرتا تھا اس کی کرپشن کو ڈراء کلین کرنے کے لئے ریسٹ ہاؤس کو سب جیل قرار دیا گیا*پھر آٹھویں دفعہ کا ذکر ہے کہہ ملک ریاض ملک کے منتخب صدر کو لاہور میں 5 ارب کی تسلیم شدہ مالیت کا بلاول ہاؤس کا تحفہ پیش کرتا ہے*پھر نویں دفعہ کی حکایت ہے کہہ صدر محترم کراچی میں 20 ہزار ایکٹر سرکاری زمین ملک ریاض کو تحفہ میں پیش کرتے ہیں *ہاں یاد آیا کہ ایک ارسلان افتخار بھی ہوا کرتا تھاجس کا ذکر عدل کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں گم ہو گیا*پھر انکا کچھ بھی نہیں اکھاڑ سکا کوئی اور قصہ ختم ہوا لیکن ٹھہریے جناب ابھی تھوڑا سا قصہ اور آخری دفعہ کا ذکر تو باقی ہے جمعہ کی نماز کے بعد باہر نکلا تو کچھ نمازی دنیا و مافیا سے سے بے سدھ ایک نشئی کی اچھی خاصی دھلائی کررہے تھے پوچھنے پر ایک ٹوپی والے شخص نے انتہائی حقارت سے کہا کہ بے غیرت جوتی چرا رہا تھا جسے پرہیز گاروں نے مار مار کر لہو لہان کر دیااور دوسری طرف اربوں روپے لوٹنے والے پروٹوکول کے ساتھ عید منانے لندن جارہے ہیں واہ کیا کہنے سرکار مان گئے آپکو اور پالیسیوں کو بھی جناب۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200