دیسی لبرل یا کاٹھے انگریز

Liberalism

Liberalism

تحریر: فہیم افضل
انگریز نے ہندوستان پر اپنی من مرضی کی حکومت کی اور سالہا سال سے اس خطے میں قائم تہذیب کو تار تار کر دیا اس رنگیلی تہذیب کے زیر اثر ایک نئی قوم پروان چڑھی جو دکھنے میں تو دیسی لگتی ہے مگر افکار، نظریات کی رو سے باطنی طور پر انگریز ہے دراصل انگریز نے اس بر صغیر کو دو چیزیں تحفے میں دیں ایک تو بیورو کریسی کا نظام جبکہ دوسری لبرلزم یعنی لبرل طبقہ جو بناوٹ میں تو دیسی ہے مگر فکری آمیزش کی وجہ سے اس میں غیر اسلامی و غیر تہذیبی عنصر عام نظر آتا ہے انگریز تو اس خطے سے چلا گیا مگر یہی دو ابتلائیں ہمارے ملک کیلئے چھوڑ گیا جن کی وجہ آج شاید ایک قوم کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو رہا ہے چونکہ قوم ہمیشہ نظریات سے بنتی ہے اور نظریہ ایک سوچ، ایک فکر کا نام ہے مگر جس ملک میں مختلف نظریات، مختلف سوچ ہو وہاں متحدہ قومیت کی فکر محض باتوں تک ہی محدود رہتی ہے۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ ملک پاکستان کے حصول کی بنیادی دو قومی نظریہ ہے یعنی بر صغیر پاک و ہند کا بٹوارا بھی قومیت اور نظریات کی بنیاد پر ہوا لیکن یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ ہندو، مسلمان کے علاوہ بر صغیر میں دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے جو بعد ازاں اپنے نظریات کی بناء پر دو بڑی قوموں میں سے ایک ساتھ منسلک ہوگئے جس بناء پر قومیت کی بنیاد وطنیت کی بنیادوں پر استوار ہوئی مگر نظریات اور فکر کا تضاد بد ستور برقرار رہا انگریز ی کلچر کی رنگینیوں کے رسیا اپنی تہذیب سے دور ہوئے یوں اس طبقے نے ہمیشہ معاشرتی اقدار کی نفی کرتے ہوئے اپنی اذہانی کیفیات کے مطابق آزادانہ سوچ اور آزادانہ ماحول کا ڈنڈھورا پیٹنا شروع رکھا یہ طبقہ نہ تو مشرقی افکار کے زیر اثر رہا اور نہ ہی مغربی افکار کے تابع رہا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ دیسی بھیس میں یہ کاٹھے انگریز ہی رہے جنہوں نے قیام پاکستان نے بعد اپنی سازشوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے معاشرے کے نوجوان طبقے کو ذہنی آزادی و آزاد خیالی کے سبز باغ دکھا کر ان کے اذہان کو منشتر کیا اور اپنے نفوس کی ہوس پوری کرنے کیلئے معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی کی روش کا آغاز کیا۔

آج تک ملک میں جہاں کہیں مذہب یا قدیم مشرقی تہذیب کا معاملہ ہو یہ طبقہ اکثر سازشوں اور شور شرابوں میں سر فہرست نظر آئے گاکبھی یہ طبقہ مختاراں مائی کے معاملے پر ستیزہ کاری کرتا دکھائی دے گا اور کبھی ملالہ یا قندیل بلوچ کے معاملے پر موم بتیاں اٹھائے ملک کو بدنام کرنے کیلئے صف آراء نظر آئے گا آج کل انہی افکار کو فیشن کا نام دے کر معاشرے کا بیڑہ غرق کرنے کیلئے کاٹھی انگریزی سو چ کی متحمل آنٹیاں سر گرم ہیں جو بے حیائی ، غیر اخلاقی ، غیر اسلامی منفی روایا ت کو فیشن اور جدت کا نام دے کر ہزاروں سال پرانی تہذیب کا قتل عام کرنے پر تلی ہوئیں ہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر خدانخواستہ مذہبی حلیہ میں ملبوس کوئی شخص ارتکاب جرم کر بیٹھے تو بس اسلامی تہذیب پر نکتہ چینی کرنا ان کا جیسے اولین مشن ہوجاتا ہے آج اگر دیکھا جائے تو نوجوان نسل انہی کاٹھے انگریزوں کی افکار کے تابع ہو کر اپنی تہذیب سے دور ہو رہے ہیں بے حیائی ، سڑکوں گلیوں میں ناچ گانے کو برا نہیں سمجھا جاتا یہاں تک مرد عورتوں کا محافل میں گپیں مارنا ،ایک دوسرے پر بہبودہ باتیں کرنا ایک دوستانہ تعلق سمجھا جا تا ہے اس سوچ کو پروان چڑھانے والے کاٹھے انگریزوں کے زیر سایہ چلنے والے تعلیمی ادارے ہیں جو تعلیم کے نام پر ہماری تہذیب ،ثقافت و تمدن کو ختم کرر ہے ہیں آج بڑے بڑے غیر سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت سے شاید ہی کو ئی بے خبر ہو ماڈرن کلچر کے نام پر پاکستانیت ،اسلامیت اور انسانیت کی انقلابی افکار کو ختم کیا جا رہا ہے۔

English

English

جبکہ دور حاضر میں انگلش کا بھوت تو ہماری قوم پر ایسا سوار ہے کہ اب ہم اردو سے ہی واقف نہیں اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ اردو ہماری قومی و سرکاری زبان ہو نے کے باوجود ہمارے سرکاری اداروں میں خط و کتابت انگریزی میں ہو رہی ہے حال ہی میں عدلیہ نے اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کے احکامات صادر کئے اور جج صاحب نے فیصلہ بھی اردو میں پڑھ کر سنایا اب حقیقی طور دیکھا جائے تو یہ ایک لطیفہ ہی نظر آئے گا کہ ماتحت عدالتوں میں اب بھی فیصلہ جات انگریزی میں تحریر کئے جارہے ہیں ہمارے تعلیمی نظام میں بھی اردو کے حوالہ سے دلچسپی تقریباً معدوم ہوتی جا رہی ہے ہماری نوجوان نسل کو اپنی ثقافت ، تہذیب کے بارے میں شاید اب پتہ ہی نہیں ہے زبانوں کا فطرت سے بڑا گہرا تعلق ہے “ایک دانشور کا قول ہے کہ کوئل اپنی زبان بولتی ہے اسلئے آزاد رہتی ہے مگر طوطا کسی کی زبان بولتا ہے اسلئے قید کر لیا جاتا ہے ” اب اگر ہم بغور جائزہ لیں تو یہ ہمیں یہ یقین کر لینا چاہیے کہ ہم نے اپنی زبان ، ثقافت چھوڑ دی اسلئے ہم آزادی ہوتے ہوئے بھی نظریاتی غلام بنے ہوئے ہیں اور یہ غلامی جو ہم پر مسلط ہوئی ہے۔

انہی لبرل یعنی کاٹھے انگریزوں کا ہی کارنامہ ہے جو ہماری تہذیب ، ہماری زبان ، ہماری افکار سے نفرت کرتے ہیں جو خود انگریز کے ذہنی غلام ہیں اور دوسری قوم کو بھی اس غلامی کی قید میں جھونکنا چاہتے ہیں مجھے ایک دفعہ لاہور نیشنل سکول آف آرٹس جانے کا اتفاق ہوا جب وہاں گیا تو یقین کریں حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا تہذیب کے منافی سرگرمیاں ، بنات حواکے بے شرمیاں ، ابنان آدم کی بے باقیاں دیکھ کر احساس ہوا کہ ہم آزاد کب ہوئے ہیں ؟ ہماری تہذیب کے اثرات کہاں ہیں ؟ کیا یہ وہ قوم ہے جس سے یہود و ہنود تھر تھر کانپتے تھے ؟ کیا یہی وہ قوم ہے جن کے ایمان کی پختگی کی مثالیں دی جاتی تھیں ؟ میں تھوڑا آگے بڑھا تو دیکھا یہ پارک میں کونے میں لڑکے ،لڑکوں کا ایک جھتا گروپ کی شکل میں بیٹھا ہوا تھا سب کے ہاتھ میں منشیات سے پُر سگریٹ تھے جو بڑے اطمینان سے سوٹے لگائے جا ر ہے تھے یہ منظر کم نہ تھا کہ دیکھا کس طرح لڑکے لڑکیاں آپس میں گلے مل رہے ہیں ،تالیاں بجا رہے ہیں ،گانے گا رہے ہیں اور غلامی نما اس آزادی پر کیسا فخر کر رہے ہیں تو احساس کے سمند ر میں ڈوب گیا اور دل سے گہری آہیں نکلی کہ دیسی لبرل اپنے مذمو م مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہو رہا ہے جو ہماری آن ہماری تہذیب کو زندہ درگور کر رہا بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی مجھے ایک دوست نے بتایا جو لاہور کے ایک پوش علاقے میں رہتا ہے کہ بھائی صاحب آپ صرف اتنا دیکھ کر غمزدہ ہو رہے ہیں LUMS یونیورسٹی کا چکر لگائیں تو پاکستان میں آپ کو یورپ نظر آجائے گا یہی نہیں پوش علاقوں میں ڈانس پارٹیاں ،رنگین محافل رقص و سرور کے نشے میں دھت پروانے کس کس طرح کے غیر اخلاقی کارنامے سر انجام دے رہے ہیں۔

آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے اسی تفکر میں ایک مجاہد میرے خیال سے گزرے جو اسی موضوع پر عرصہ دراز سے اپنا قلم چلا رہے ہیں میرا مطلب یہاں ملک نے نامور کالم نگار اوریا مقبول جان صاحب ہیں جو دیسی لبرل اور کاٹھے انگریزوں کی ہولناک آزاد خیال رنگیلی تہذیب کا اصل چہرہ قوم کو دکھانا چاہتے ہیں شاید اب یہ در د میں بھی محسوس کر رہا ہوں جب آپ کی نوجوان نسل کے حالات یہ ہوں گے تو آپ ان سے اعلیٰ اخلاق ،ادب کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کو غیر محرم کے ساتھ دیکھ کر نادم نہ ہو بلکہ اپنی بیٹی کے دوستانے پر فخر کرے تو کیا آپ سمجھتے ہیں وہ معاشرہ سلطان صلاح دین ایوبی ، رابعہ بصری جیسی شخصیات دے گا عمران خان صاحب کی جماعت تحریک انصاف کی داستان زبان زد عام ہیں مگر کیا کوئی یہ بھی سوچ رہا ہے کہ یہ صاحب سیاسی امو ر پر مجاہد نظر آرہے ہیں مگر تہذیب و اخلاقی امور پر کس فکر کے تابع ہیں تعجب ہے مجھے ایسے لیڈروں پر جو باتیں تو مسلمان خلفاء کی کرتے ہیں مگر اپنے سامنے ہونے والی بے حیائی پر آنکھیں موندے بیٹھے ہیں واہ صاحب ، بنت حوا کو نچوا کر آپ کس تہذیب و تمدن کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ؟ کیا یہ ایک مسلمان لیڈ ر کا وطیرہ ہے ؟یہ کہاں کا انصاف ہے کہ باتیں آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کریں اور وکالت آپ لبرل غیر اسلامی اور مغربی تہذیب کریں ؟ کرپشن اپنی جگہ ، اختیارا ت اپنی جگہ ،کیا تہذیب کے لٹیروں کا محاسبہ کرنا آپ کا فرض نہیں ؟ یا یہ کہہ لیا جائے آپ تو خود اسی تہذیب کی غلامی رہے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

لبرل نظام سے آپ نے تربیت پائی ہے ؟تو بھلا اچھے پاکستانی بنانا آپ کا مشن کیسے ہو سکتا ہے ؟ ضروری ہے کہ مشرقی تمدن کے تحفظ کیلئے آپ کوئی اقدام کریں یہ بے حیائی کا کلچر دے کر آپ کیا سمجھتے ہیں ملک کیلئے اچھا کریں گے عمران خان صاحب بات تو کرتے ہیں کہ نیا پاکستان بننا چاہیے جہاں لبرل اپنی مرضی سے بے حیائی کر سکیں جبکہ پرانے پاکستان کی یہ بات نہیں کریں گے کیونکہ پرانا پاکستان تہذیب ، ثقافت اور مشرقی اقدار کی بنیاد پر حاصل کیا گیا جو لبرل کاٹھے انگریزوں کو ایک آنکھ بھی نہیں بھائے گا اب اس قوم سے کوئی پوچھے آج کے ان لیڈروں کے بچے پرورش انگریز کے ماحول میں پاتے ہیں فکر و طرززندگانی انگریزی اور یہاں باتیں مشرق کی کرتے ہیں تعلیم انگریز سے حاصل کی ماحول انگریز کا پایا اور سیاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کر رہے ہیں آج ہرتقریباً ہر گھر میں ایک فساد بر پا ہے والدین بچوں کی نافرمانی کا شکوہ کرتے ہیں۔

بے ادب افراد بہتات ہو چکی ہے ، نہ کوئی عور ت کے تقدس اور بزرگوں کے احترام روش باقی رہی ہے اور نہ ہی مثالی معاشرے اور مثالی انسانوں کا وجود ہی باقی رہا ہے آپ کس آزادی کی بات کر رہے ہیں ؟ بھئی آپ آزاد نہیں غلام ہو رہے ہیں تہذیب کے غلام ،فکر کے غلام اورنفسیات کے غلام ہمارا میڈیا ، ہمارے لیڈر لبرل کاٹھے انگریز اسلام دشمن عناصر کے آلہ کار ہیں ہماری مائیں آج اپنی اولادوں کی تربیت کرنا بھول چکی ہیں جس کی وجہ سے لبرل غلام میڈیا ہماری نسل کی تربیت کر رہا ہے ماڈرنائزیشن کے نام ہم اپنا ہی بیڑا غرق کر رہے ہیں ہماری نظروں کا محور امریکہ یورپ ہے ذرا نظریں قریب لے آئیں اور چائنہ کی طرف دیکھیں کہ کئی سوسال گزر جانے کے باوجود ان کی زبان کا وجود قائم ہے ان کی تہذیب و ثقافت معدوم نہیں ہوئی کیا چائنہ نے ترقی نہیں کی ؟ کیا چائنہ میں انقلاب نہیں آئے ؟ کیا وہاں تحریکیں نہیں چلیں ؟ اب غور کریں انقلابات ، تحریکوں کے باوجود ان کی تہذیب پر ذرّہ برابر بھی فرق نہیں پڑاتو ہم اپنی تہذیب کو چھوڑ کے دوسروں کی افکا رکے تابع ہو گئے اور مطالبہ آزادی کا کر رہے ہیں ؟ بات کوئی بنتی نظر آرہی سیاست اپنی جگہ ۔۔۔ میرا ماننا ہے کہ غیر ت اللہ کی عظیم نعمت ہے جو مرد اور عورت کو یکساں عطا کی گئی۔

بس اگر یہی غیرت انسانی جسم زندہ رہے تو انسان اخلاقیات کی بلندیوں کو حاصل کر لیتا ہے جہاں سے ایک مثالی معاشرہ کا قیام عمل میں آتا ہے یاد رکھیں کائنات نظام مدار کے تحت قائم کی گئی ہر چیز کا ایک مدار ہے جب بھی کوئی چیز اپنے مدار سے باہر نکلتی فنا ہو جاتی ہے جس کے اثرات کائنات کے سارے سسٹم پر مرتب ہوتے ہیں عورت کیلئے جدو جہد منع نہیںمگر اس طرح بے پردہ ہو کر اپنے جسم کی نمائش کرکے کیا عزت ملے گی ؟ میرا یقین ہے کہ اقدار بنات حوا کی پاسبان عورت نے ہر دور میں اپنی عزت اور تقدس کا مرتبہ پایا ہے بات سوچ کی ہے اگر ہم نے آج اپنی سوچ کو نہیں بدلا اور اپنی تہذیب ،تمدن ، و ثقافت کے ورثے کی حفاظت نہ کی توہم ہمیشہ غلام ہی رہیں گے جب ہم نے اپنی تہذیب ، زبان کا تحفظ کر لیا تو شعور خود بخود ہماری چوکھٹ پر آئے گا پھر معاشرے سے کرپشن ، بد عنوانی بھی ختم ہو جائے گی مگر ہم اپنی تہذیب ،مشرقی افکار سے دور ہیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے آزادی حاصل کر لی ؟

Fahim Afzal

Fahim Afzal

تحریر: فہیم افضل