ضلع سدہنوتی کا ڈسٹرکٹ ہسپتال پلندری

 Palandri

Palandri

تحریر : حاجی زاہد حسین
ڈسٹرکٹ سدہنوتی آزادریاست کا ایک وسیع و عریض ضلع ہے۔ آزاد پتن تا منگ کانچری جسہ پیر گوراہ گڑالہ تا تراڑکھل بلوچ ٹاہلیان بارل پنتھل تا چھے چھن پانہ لاکھوں کی آبادی پر مشتمل یہ ضلع ہے۔ ہر طرف سر سبز پہاڑوں میں خوبصورت وادیوں پر مشتمل یہاں کی سرزمین زرعی پیداواری لحاظ سے زرخیز زمین جہاں سالانہ دو فصلیں گندم اور مکئی کی معقول پیداوار دیتی ہے۔ یہاں کے درجنوں اونچی ٹیکریاں صاف و شفاف بہتے پانی خوبصورت وادیاں سیاحت کو فروغ دے سکتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ایک بھی سیاختی مرکز قائم نہ ہونے سے مقامی ، مرکزی حخومتووں کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔

تحریک آزادی میں نمایاں اور بیش بہا قربانی دینے درجنوں ہیروز مجاہدین غازیوں اور شہیدوں کی یہ سرزمین گھر گھر پاکستانی فوج او ر) اے کے (افواج میں خدمات سر انجام دینے والے جس کے اعتراف میں دو عشرے قبل مرحوم ذولفقار علی بھٹو صد ر پاکستان اور مرحوم جنرل ضیا الحق صدر پاکستان نے ان کی انہی خدمات کے عوض کیڈٹ کالج کا عظیم ادارہ قائم کروایا جو آج بڑے منظم انداز سے مقامی اور غیر مقامی لوگوں کے بچوں کو جدید ترین تعلیم و فوجی تربیت سے آراستہ کر رہا ہے۔ مگر دیگر کئی شعبوں میں تعمیر و ترقی میں یہ ضلع عدلیہ اور انتظامیہ جیسے اداروں کی نا مکمل عمارتوں نا مکمل عملے اور ہیلتھ کی نا مکمل سہولیات سے محروم ہماری حکومتوں حکمرانو سیاسی لیڈروں کی عدم توجہ سے عرصہ دراز سے محرومیوں کا شکار چلا آرہا ہے۔ ڈوگرہ عہد سے یہ مرکزی ڈسٹرکٹ پلندری سدہنوتی نہ جانے آزاد ریاست کے باقی تمام اضلاع سے تعمیر و ترقی مں کیوں پیچھے رکھا گیا۔ محروم رکھا گیا۔ جبکہ حدود پاکستان آزاد پتن سے صرف پندرہ میل پر واقع اس کا مرکز پلندری اہم مرکز تمام ریاست میں سے گرمیوں میں معتدل سردیوں میں بہار و خزاں چاروں موسموں میں معتدل حیثیت رکھنے والا عسکری لحاظ سے نہایت ہی اہمیت کا حامل یہ ڈسٹرکٹ پلندری سدہنوتی ہر لحاظ سے اسے محروم و نامراد رکھا گیا کیوں۔ ہماری سمجھ سے یہ بالا تر ہے۔ قارئین میں دوسرے تمام اداروں کی محرومیوں کو چھوڑ کر صرف اپنے اس کالم میں اپنے ایک صدی سے قائم سدہنوتی کے واحد ڈسٹرکٹ ہسپتال پلندری کی محرومیوں کی طرف اپنے حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائوں گا جہاں آج بھی زچہ بچہ کا جدید سنٹر قائم نہیں کیا گیا۔

یہاں کے غریب عوام کی اکثر بیٹیاں عین وقت پر کوٹلی پنڈی منتقل کر دی جاتی ہیں۔ جن کی ایک بڑی تعداد راستے میں دم توڑ دیتی ہے یا اپنے معصوم بچے بچیوں سے محروم ہو جاتی ہے۔ صوفی محمد یسین اور اس جیسے درجنوں مظلوموں سے کوئی پوچھے جن کی بیٹیاں بہوئیں راستے میں د م توڑ کر انہیں پلندری شہر کی سڑکوں پر دھاڑیں مارتے چھوڑ گئیں۔ میری خاکسار کی دو سالہ پوتی عیشال فاطمہ کو سانپ کے کاٹنے سے ایمرجنسی عملے ڈاکٹرز کی عدم توجہ جسے فوری علاج کے بجائے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا دو گھنٹے میں تڑپتے تڑپتے جان دے گئی ۔ ایسے درجنوں معصوم یہاں کے ظالم عملے کی نذر ہوئے ہو رہے ہیں۔ کبھی عملہ پورا نہیں کبھی ڈاکٹرز اب تو چار چار سرجن ہیں لیکن بہانہ بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر ز نہ شد۔ ایکسرے مشین ہیں الٹراسائونڈ مشین ہیں مگر ہمارے قابل ترین ڈاکٹرز گردے کے درد والے کو پتھری ۔ پتھری والے کو اپنڈس ہر نیا والے کو الم معدہ ہمارے کئی جاننے والے ان کے اپریشن پٹھے سے اٹھ کر بھاگے اور کوٹلی پنڈی میں جا کر ٹھیک ہو گئے اور اپنا پیٹ کٹنے سے بچ گئے ۔ ان کی رپورٹیں اور ہوتی ہیں اور دوسرے ہسپتالوں کی تشخیص اور ہوتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے آصف نام شخص اپنی معصوم ایک سالہ بچی کو لے کر ان کے پاس گیا ایک نامی گرامی ڈاکٹر نے اسکا بار بار الٹی کرنا الٹراسائونڈ کیا فرمایا اسکی معدے کی نالی ڈیمج ہو چکی ہے۔

تجویز اپریشن ہوا۔ وہ راولپنڈی لے گئے وہاں الٹراسائونڈ ہوا بچی کو دو مرتبہ سیرپ دی گئی وہ ٹھیک ہو گئی الڑاسائونڈ نارمل آیا۔ یہ ہے ان کی قابلیت ڈاکٹر ایک بچے اپنے اپنے پرائیویٹ کلینکوں میں بھاگ جاتے ہیں۔ دو دو ہاتھ گھی میں ہیں۔ سر کڑاہی میں ۔ وہاں گئے رات میلے لگے ہیں مریضوں کے اس ڈسٹرکٹ ہسپتال میں دوائی نہ گولی ۔ سرنج نہ گلوکوز کی بوتل ۔ دس روپے کی پرچی پر عملہ لگا رکھا ہے۔ وہ بھی رعونت و تکبر سہمے سہمے مریض عورتیں ان کے رحم و کرم پر عملے نے اپنے تحفظ کے لئے یونین بنا رکھی ہے۔ مگر عوا م کا تحفظ کوئی نہیں۔ عملہ اپنا ڈاکٹرز مقامی ایم ایس ۔ ڈی ایچ او سب اپنے مگر مسیحا کوئی نہیں یہاں سفارشی سیاسی چمچوں کو گھر بیٹھے دوائیں زکواة فنڈ سے مگر غریب دیہاڑی دار میڈیکل سٹوروں پر ذلیل ۔ ذرائع کے مطابق ڈائیلاسیز کی سات مشینیں بند پڑی ہیں اپریٹ کرنے والا کوئی نہیں گردوں کے مریض رو رہے ہیں دوہائی دے رہے ہیں۔ پرچی پنڈی کوٹلی کی نہ جانے کیوں اس کا جواب تو یہاں کے ذمہ داران ہی دے سکتے ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس نہیں ۔ سزا جزا نہیں خوش قسمتی سے وزیر صحت بھی اس ڈسٹرکٹ کے مقامی چار چار وزارتیں رکھنے کے باوجود اپن مقامی اپنے علاقائی ڈسٹرکٹ اور واحد ڈسٹرکٹ ہسپتال کی یہ حالت ۔ اپنے ووٹروں سپورٹروں اپنے چچائوں بھتیجوں کی اولادوں سے یہ برتائو ۔ یہ مسیحا ہی ہے یا جلادی ۔گزشتہ سالوں میں واحد منظور شدہ دوسرا پروجیکٹ سی ایم ایچ چالیس کروڑ کی لاگت سے تعمیر شدہ ٹھیکیداروں اور مقامی محکمہ تعمیرات عامہ جیسے ادارے کی ملی بھگت سے دو کروڑ کی کرپشن کی نذر ہو کر بند پڑا ہے۔ عدالتی تحقیقات کے باوجود ذمہ داروں کو سزا نہ دی گئی ۔ اور دوبارہ کام شروع نہ ہو سکا اتنا بڑا پروجیکٹ ان سب کی نااہلی اور بدیانتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چوالیس کروڑ کی لاگت سے پلندری شہر کے اطراف بڑی خوبصورت رنگ روڈ بنائی گئی تھی جس کا اب کوئی والی وارث نہیں اسکا کوئی ذمہ دار نہیں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے نہ ہی مقامی انتظامیہ ذمہ دار بنتی ہے نہ پاکستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی او ر نہ ہی ٹھیکیدار اتنی بڑی واحد پلندری کا سٹیڈیم وہ بھی نا مکمل اور کرپشن کی نظر خداراہ یہ اپنے عوام سے اپنے علاقے اور اپنی ریاست سے اتنی بڑی زیادتی اور بدیانتی کچھ تو خدا کا خوف کریں ۔ آپ کو تعلق کسی بھی جماعت سے ہے ۔ آپ کی نسلیں تو یہاں ہی رہیں گی۔ قوم کا پیسہ قوم کی امانت قوم کا ووٹ مظلوم یہ آپکا گریبان نہ پکڑیں تو کیوں نہ پکڑیں۔

اس سے پہلے کہ اللہ کی دراز رسی سمٹ آئے ۔ امانت داروں کو ان کا حق دیں۔ اپنے عوام کم از کم انکو بنیادی سہولیات زندگی مہیا کریں ۔ تعلیم و تربیت عدل و انصاف تعمیر و ترقی اور صحت پہ عوام کا حق ہے۔ اور ان سب سہولیات سے محروم پلندری ڈسٹرکٹ سدہنوتی کا حق ہے۔ مقامی انتظامیہ ہے یہ اپوزیشن اور حکومتی عہدے داران یا ممبران اسمبلی ہیں ۔ یا وزیر صحت اور وزیر تعمیرات اس طرف توجہ دیں۔ ان بڑے پراجیکٹوں کو مکمل کرائیں۔ اور اپنے اس واحد ڈسٹرکٹ ہسپتال کی حالت درست کریں ڈاکٹرز اور اس کا عملہ اپنے اپنے فرائض دیانتداری سے سر انجام دیں ورنہ ہم پھر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین ممبر فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان
hajizahid.palandri