ڈاکٹر کے روزے نے ایک جان لے لی

Minorities

Minorities

تحریر : واٹسن سلیم گل
میں دو دن سے کسی اور موضع پر کالم لکھ رہا تھا۔ آج مکمل کر کے بھیجنے والا تھا کہ میری نظر جنگ اخبار کی ایک خبر پر پڑی۔ خبر پڑھنے کے بعد اس کی مضید تفصیل معلوم کرنے کے لئے کچھ دوستوں سے رابطہ کیا تو بہت افسوسناک اور شرمناک صورتحال سامنے آئ۔ واقعہ یہ ہوا کہ عمر کوٹ سندھ سے تعلق رکھنے والے چار مسیحی خاکروب عرفان مسیح، اکرم مسیح، فیصل مسیح اورنظیر مسیح ایک بند گٹرلائین جو کہ کچھ دنوں سے بند پڑی تھی اسے صاف کرنے کے لئے پہنچے پہلے وہ بند گٹر کو بانس سے کھولنے کی کوشش کرتے رہے مگر جب یہ گٹر نہی کھُلا تو عرفان مسیح رسی کمر سے باندھ کر گٹر میں اتر گیا۔ اس بند گٹر میں زہریلی گیس تھی جس سے عرفان مسیح بےہ وش ہو گیا اسے بچانے کے لئے ایک اور پھر دوسرا اور پھر تیسرا سب ایک دوسرے کو بچانے کے لئے گٹر میں اتر گئے ان کو بعد میں تشویشناک حالت میں گٹر سے نکالا گیا۔

حیرت انگیز طور پر ان میں سے کسی کے بھی پاس نہ تو سیفٹی کِٹ تھی نا کوئ گیس ماسک تھا۔ عرفان مسیح کو جب ہسپتال لایا گیا تو وہ زندہ تھا اور اگر اسے وقت پر طبئ امداد مل جاتی تو یہ بچ سکتا تھا مگر ڈاکٹر صاحب نے عرفان مسیح کو چھونے سے انکار کر دیا کیوںکہ وہ گٹر والے پانی سے تر تھا اور ڈاکٹر صاحب کا روزہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ ضد تھی کہ پہلے مریض کو نہلا کر لاؤ پھر میں علاج کرونگا کیونکہ میں روزے سے ہوں۔ اور پھر ڈاکٹر صاحب نے اپنا روزہ بچا لیا اور عرفان مسیح ہلاک ہو گیا اگر اسے وقت پر صرف آکسجن مل جاتی تو وہ بچ سکتا تھا۔ اکرم مسیح، فیصل مسیح اور نظیر مسیح کو حیدرآباد کے ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ اس صورتحال میں علاقے کے مسیحی غم و غصے میں جمح ہو کر احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس ڈاکٹر کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ پاکستان میں مسیحی مرد یا تو زہریلی شراب سے ہلاک ہوتے ہیں یا زہریلی گیس سے اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر حکومت کے کان پر کوئ جوں یا کھٹمل نہی رینگتا۔ کہنے کو خاکروب کی نوکری سرکاری نوکری ہوتی ہے مگر یہ واحد سرکاری نوکری ہے جس میں انسان کی موت اور جانور کی موت میں کوئ زیادہ فرق نہی ہے۔ کوئ سرکاری نوکری والا اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے اگر جاں بحق ہو جائے تو ہیرو بن جاتا ہے مگر یہ بچارے خاکروب بھی خاک روب ہی ہیں۔ یہ خاکروب اپنی جان پر کھیل کر ملک کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔اور محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ مگر معاشرے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

پولیس کی نوکری سرکاری نوکری ہے ان کو اسلحہ، یونیفارم اور گاڑیاں ملتی ہیں۔ بجلی، پانی اور دیگر محکموں کے مزدوروں کو بھی ان کے پیشے کی ضرورت کے حوالے سے اوزار اور دیگر ضرورت کی چیزیں ملتی ہیں اور اگر نہی ملتی تو وہ اپنے کام سے انکار کر دیتا ہے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بچارہ خاکروب صبح سویرے محض ایک لمبا سے بانس لیکر نکلتا ہے اور یہ بانس بھی اس کی زاتی ملکیت ہوتا ہے۔ جس سے یہ گٹریا مین ہول کھولنے کے لئے استمال کرتا ہے۔ میں نے نہی دیکھا کہ اب تک جتنے بھی خاکروب اپنے فرائیض کی ادائیگی کے دوران جاں بحق ہوتے ہیں ان کوحکومت کی جانب سے کچھ ملتا ہو۔ ان کے بچے یتیم ہو جاتے ہیں عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں اور پھر وہ خواتین گھروں میں کام کاج کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے پر مجبور ہوتیں ہیں۔ ابھی دو دن پہلے مجھے میرے ایک دوست کا فون آیا جس کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ ایک کمپنی کے چوکیدار نے دو مسیحی نوجوانوں کو مار مار کے زخمی کر دیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اس کمپنی میں صفائ کا کام کرتے تھے۔ دوپہر کو فیکٹری کی دیوار کے پیچھے چھپ کر کھانا کھا رہے تھے۔ کہ چوکیدار وہاں پہنچ گیا اور روزے کا احترام نہ کرنے پر اپنے ڈنڈے سے ان کو مارنا شروع کر دیا۔ ایک مسیحی کی کونی کی ہڈی ٹوٹ گئ۔ بات منیجر تک پہنچی تو مینجر نے ان کی جان چھڑوائ اور چوکیدار کو سمجھایا کہ وہ تو چھپ کر کھانا کھا رہے تھے۔ سرعام کھانا نہی کھا رہے تھے۔ چوکیدار نے دانت نکال کر کہا کہ ” او ساب جی غلطی ہو گئ “۔ اور پھر بات ختم ہو گئ۔ جس کی کونی کی ہڈی ٹوٹی وہ تو ایک دو مہنے کے لئے مزدوری سے گیا۔

اب اس کے بچوں کو نہ تو وہ چوکیدار کھلائے گا نہ ہی اس کی کمپنی اسے گھر بٹھا کر تنخوا دے گی۔ یہ ظلم ہے یار، خدا کا خوف کرو۔ کون کہتا ہے کہ اس طرح کے کرتوت کرنے سے اللہ سبحان تعالی تمہارے روزے قبول فرمایں گے۔ کیوں عوام کو رمضان کے مہنے میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے آگاہ نہی کیا جاتا کہ اگر آپ نے کسی کو غلطی سے کچھ کھاتا دیکھ بھی لیا ہے تو یہ غلطی ہو سکتی ہے جرم نہی ہو سکتا۔ کہ آپ اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیں۔

آپ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اگر کسی کو رمضان میں کچھ کھاتے پیتے دیکھ لیں تو پہلے اسے ایک وارنینگ ضرور دیں ۔ کیونکہ اگر وہ مسلمان نہی ہے تو وہ غلطی کر سکتا ہے بے دھیانی میں کچھ کھا سکتا ہے۔ کوئ احمق ہی ہوگا جو جانتا نہ ہوگا کہ رمضان کا احترام نہ کرنی کی کیا سزا ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے الیکٹرونک میڈیا کو بھی آگاہی مہم چلانی چاہئے۔ اور عوام کو ایجوکیٹ کرنا چاہئے کہ وہ بحثیت مسلمان اپنے عمل سے ثابت کریں کہ رمضان کا مہینہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہی بلکہ اقلیتوں کے لئے بھی برکت کا مہنہ ہے۔ اور خدا تعالی کی زات ایک ہی ہے جس نے مسلمانوں کو تخلیق کیا وہی ہندو، مسیحیوں، سکھوں اور تمام انسانوں کا خالق ہے۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل