ڈاکٹروں کی ہڑتال اور حکومت کی پسپائی

Young Doctors Strike

Young Doctors Strike

تحریر : روہیل اکبر
آخر کار پنجاب حکومت حسب سابق عوام کو ذلیل وخوار کرنے کے بعد ڈاکٹروں کے تمام مطالبات مان چکی ہے اور ڈاکٹروں نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کے ساتھ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے فتح کے جشن سے اپنے کام کا آغاز کردیا ہے گذرے ہوئے ان 15ایام میں سینکڑوں مریض ان بے رحم افراد کے رحم وکرم پر رہے جنکی بے بسی اور لاچارگی پر حکومت کو رحم آیا نہ ہی ڈاکٹروں نے ترس کھایاہسپتالوں میں مریض آتے رہے ٹرپتے رہے اور چیخ وپکار کرتے رہے مگر کسی نے انکی ایک نہ سنی اور ان میں سے بہت سے افراد اپنے پیاروں سے الگ ہوگئے گھر کے ایک فرد کے چلے جانے سے اہل خانہ پر جو بیتتی ہے وہی بہتر جانتے ہیں اور خدا نخواستہ اگر گھر کا سربراہ ہی چلا جائے تو پھر وہ خاندان تنکوں کی طرح بکھر جاتا ہے تقریبا 15دن تک ڈاکٹر سڑکوں پر رہے مختلف مقامات پر جلسے ،جلوس اور ریلیاں نکالتے رہے حکومت نے ان سے مذاکرات نہیں کیے بلکہ انہیں بھگانے کے لیے لاٹھی چارج بھی کیا گیا اور ان پر پانی بھی پھینکا گیا مسلسل ہڑتال کی وجہ سے چند ڈاکٹروں کو نکال کرانکی جگہ نئے ڈاکٹر بھی تعینات کیے گئے مگر حکومت اس معاملہ کو سنبھال نہ سکی بلکہ اپنے کہے ہوئے الفاظ سے بھی پسپائی اختیار کرلی اور سینکڑوں مریضوں کی تباہی ،درجنوں خاندانوں کی بربادی کرنے کے بعد آخر کا رحکومت نے ڈاکٹروں کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے اس دوران جو مریض مر گئے کیا۔

انہوں نے اور انکے خاندان کے لوگوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ نہیں دیے تھے کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں تھے اور کیا انہیں اپنے ہی پیسوں سے دیے گئے ٹیکس سے اپنا علاج معالجہ کروانے کی اجازت نہیں ہے اور کیا ہم سب کسی تیسری دنیا کے بہت ہی پسماندہ ملک میں رہ رہے ہیں جہاں خاندانی بادشاہت قائم ہے اور عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے اگر ایسا ہے تو پھر جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت ہی اچھا ہے بلکہ اس کو مزید اچھا کرنے کی ضرورت ہے ٹیکسوں کی مزید بھر مار ہونی چاہیے اور اس سلسلہ میں سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے ،بولنے پر بھی پیسے کاٹ لینے چاہیے ،آنکھیں کھلی رکھنے کا ڈبل جرمانہ ہونا چاہیے ،زندہ رہنے کے لیے زندگی بھر حکمرانوں کی غلامی کرنی چاہیے اور مرنے کے بعد اپنے جسم کے تمام اعضاء حکمرانوں کے حق ملکیت سمجھے جائیں جنہیں وہ فروخت کرکے اپنے بال بچوں کے لیے سرے محل اور لندن فلیٹس جیسی جھونپڑیاں خرید سکیں بے شک ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی سوچ یہی ہے کہ وہ جب برسراقتدار آئیں تو سب سے پہلے انہیں ہی مزا چکھائیں جنہوں نے انہیں اپنا ووٹ دیا ہے اسی لیے تو جب بھی کسی حکمران پر برا وقت آتا ہے تو وہ ملک کو نازک صورتحال کی طرف دھکیل دیتا ہے کیونکہ اس وقت وہ خود نازک صورتحال سے دوچار ہوچکا ہوتا ہے۔

ان حکمرانوں میں نہ تو کوئی قوت فیصلہ ہے اور نہ ہی یہ عوام کو کوئی سہولت دینا چاہتے ہیں پورے 15دن مریض ہسپتالوں کے اندر اور باہر تڑپتے رہے کسی نے نہیں پوچھا اگر ان حکمرانوں اور انکے کار خاص میں شامل افراد کے کان پر جوں تک بھی رینگ جاتی تو یہ اسکا علاج کروانے بھی لندن یا دبئی بھاگ جاتے اور سرکاری خرچ پر موج مستی کرنے کے بعد واپس آجاتے ان گذرے 15دنوں میں درجنوں خاندانوں پر قیامت گذر گئی مگر کسی کو کوئی احساس نہیں ہے ڈاکٹر اس بات پر خوش ہیں کہ انہوں نے اپنے مطالبات منوا لیے اور حکومت اس بات پر خوش ہے کہ انہوں نے ہڑتال ختم کروادی یہ کہاں کا انصاف ہے اور کہاں کا قانون کہ جو بات آپ نے تسلیم کرنی تھی اسے 15دنوں تک کیوں لٹکائے رکھا کیا غریب عوام سے آپ کی دشمنی ہے یا آپ عوام کی توجہ کسی اور طرف سے ہٹانا چاہتے تھے ہمارے سرکاری ہسپتال تو پہلے ہی ایک عجوبہ بن چکے ہیں جہاں ایک بیڈ پر تین اور چار مریض بیٹھ اور لیٹ کر اپنا علاج کروارہے ہوتے ہیں ادویات اتنی مہنگی ہیں کہ غریب انسان اپناعلاج کروانے کے لیے اپنا جسم بیچ دیتا ہے یا بچے مگر حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہسپتالوں میں ڈاکٹر بھی حکمرانوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اپنے کمروں میں بیٹھے گپیں ہانکتے رہتے ہیں۔

اگر کسی سیریس مریض کا تیماردار جاکر انکے دروازے پر دستک دیدے تو انہیں سخت ناگوار گذرتا ہے رات کو سو کر ڈیوٹی دینے والے دن کو بھی آرام فرماتے رہتے ہیں ہڑتال ختم ہونے کے بعد وائی ڈی اے کے ڈاکٹر پریس کانفرنس کررہے تھے تو بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ حکومت نے ہمارے مطالبات مان لیے اس لیے ہم نے عوام کی خدمت کے لیے اپنی ہڑتال ختم کردی بھائی آپ کو عوام کااتنا ہی دکھ ہے تو پھر عوام سے اپنا رویہ بھی درست کرلیں مریضوں اور انکے لواحقین کے ساتھ جوتوہین آمیز رویہ آپ لوگوں نے روا رکھا ہوا ہے اسکو بھی تبدیل کریں اپنے لہجے میں مٹھاس بھریں آپ کوئی احسان نہیں کررہے اسکے بدلے بھاری بھرکم تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں یہ سرکاری ہسپتال آپ کی ابتدائی ٹریننگ سے ماہر امراض ہونے تک آپ جیسے ڈاکٹروں کی تربیت گاہیں ہیں اور خاص کر اس ملک نے آپ کو ایک پہچان دی اسی کا خیال کرتے ہوئے مریضوں کا خیال رکھیں اپنے دروازے کھلے رکھیں کہیں یہ نہ محسوس ہو کہ آپ بھی حکمرانوں کی طرح عوام سے دور رہنے کے مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں یہ ایسا مرض ہے جس میں مبتلا ہوکر انسان اکیلا رہ جاتا ہے انسانوں کے ساتھ ایسارویہ رکھیں کہ کل کواگر خدانخواستہ آپ بھی کسی مشکل میں آئیں توآپ اکیلا پن محسوس نہ کریں یہ ملک لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔

اب مزید قربانیاں دینا ہمارے بس میں نہیں ہے خدارا ہم پر رحم کریں ہم انسان ہوتے ہوئے بھی آپ لوگوں سے اپنے ساتھ جانوروں جیسا سلوک برداشت کررہے ہیں اور اف تک نہیں کرتے مانا کہ آپ نے تعلیم پیسہ کمانے کی نیت سے ہی حاصل کی ہے اور وہ آپ کما بھی رہے ہیں مگر جن کے زریعے کما رہے ہیں انہیں بھی کچھ سکون دیدیں اور حکومت سے بھی ہماری التجا ہے کہ وہ عوام کا بہت زیادہ نقصان کرنے کے بعد آخرکار احتجاج اور دھرنہ دینے والوں کے مطالبات مان لیتی ہے یہی کام اگر شروع میں کرلیا جائے تو سو پیاز اور سو جوتے والے کام سے بچا جاسکتا ہے ابھی ڈاکٹروں کی طرف سے ایک احتجاج ختم ہوا تو دوسرا شروع ہورہا ہے یہ احتجاج پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے کیا جارہا ہے جس میں انکا مطالبہ ہے کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو شائع کیا جائے اس سلسلہ میں بھی میری حکومت سے درخواست ہے کہ اس رپورٹ کو جلد منظر عام پر لایا جائے ورنہ احتجاج جاری رہے گا اور آخر کار حکومت کو وہ رپورٹ شائع کرنا پڑے گی۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200