پھر گدھے بن گئے ہو

IMF

IMF

بجلی مہنگی ٹیکس نیٹ میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط پر نیا سودی قرضہ مل گیا مبارک ہو غیور پاکستانیوں گزشتہ حکومت کی طرح اس شیردل حکومت نے بھی عوامی مفاد میں بہت سخت فیصلہ کیا اور اس خاموش تماشائی عوام کو مزید قرضے کے بوجھ میں جکڑ دیا۔ تقریباً پانچ ارب تیس کروڑ ڈالر کا قرضہ ملے گا جس سے مہنگائی کا خاتمہ مارک اپ کی شرح بڑھائی جائیگی ایف بی آر میں اصلاحات اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے گی یہ وہ لولی پاپ ہے جو قرض لینے کے بعد عوام کو دیا گیا ہے جو کہ ایک گھنائونے مذاق سے کم نہیں جب بجلی کے فی یونٹ میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا تو مہنگائی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟۔ مہنگائی کا جن ویسے ہی بے قابو ہے اور تمام اشیا کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ بجلی کا شارٹ فال دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے بجائے بہتری کے حالات بد سے بدتر کی طرف جارہے ہیں۔

وزیر خزانہ صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کو تکلیف دہ فیصلہ کرنا ہونگے ۔جناب عوام کو تو پاکستانی ہونے کی آپ لوگ مسلسل سزا دییہی جا رہے ہوں ساری مصیبتیں اور تکلیفیں تو ہمارے ماضی اور حال کے تمام حکمرانوں نے اس قوم کے کھاتے میں ڈال دی ہیں جب چاہے جیسا بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ آپ لوگ کرلیتے ہوں اور پھر ایک بیان داغ دیتے ہوکہ جو کچھ کیا اٹھارہ کروڑ عوام کے حق میں کیا عوام کو کڑوی گولی نگلنی پڑے گی آنے والا دور بہت بہتر ہو گا، کان پک گئے ہیں یہ سب باتیں سنتے سنتے ایک حکمران جاتا ہے دوسرا آجاتا ہے جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیاہے یہ ہی باتیں سننے کو مل رہی ہیںآنے والا دور ترقی و خوشحالی کا دور ہو گا پتہ نہیں کدھر غارت ہوگئی وہ ترقی و خوشحالی ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ حصول اقتدار کے بعد واقعی آنے والا دور حکمرانوں کیلئے ترقی اور خوشحالی لیکر آتا ہے وہ عوام کا خون نچوڑنے کیلئے ایسے ایسے پلان ترتیب دیتے ہیں۔

ان کے شب وروز کی خون و پسینے کی کمائی پر کبھی پٹرول بم کبھی ٹیکس بم وغیر وغیرہ کے ڈروان گراتے ہیں اور خود مزے سے عیاشیاں کرتے ہیں اپنے بینک بیلنس میں جو چند لاکھوں میں ہوتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ابھی گزشتہ دنوں ایک نجی نیوز چینل پر کچھ خواتین ارکان اسمبلی سے رپورٹر آٹے کا بھائو پوچھ رہا تھا ایک دم حیرت در آئی کہ کسی ایک خاتون ارکان اسمبلی کو یہ تک نہ پتہ تھا کہ بازار میں آٹا کس بھائو مل رہا ہے آپ بھی سن لیجئے اور اپنے منتخب کردہ نمائندوں کو داد تحسین ضرور دیجئے گاکہ ان اراکین نے آٹے کی قیمت 1100 کسی نے 500 کسی نے 700 اور کسی نے 200 روپے کلو بتائی اللہ جانے یہ انہوں نے قیمت بتائی یہ اپنے دل کی خواہش لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو عوام کی کس قدر فکر ہے اور کتنا خیا ل ہے جن لوگوں کو آٹے دال کا بھائو نہیں معلوم وہ آپ کی خدمت کیا خاک کریں گے وہ لوگ تو اقتدار میں بس بزنس کے طور پر آتے ہیں پیسہ بناتے ہیں باہر کے ممالک جائیدادیں بناتے ہیں۔

Donkey

Donkey

عوام کو سسکتا بلکتا چھوڑ کر دوسرے ملک منتقل ہوکرموجیں مارتے ہیں پھر وہاں سے بیانات دیتے رہتے ہیں کہ ہمیں عوام کی فکر کھائے جارہی ہے قوم کی حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی ہمیں دوبارہ اقتدار ملا تو ہم عوام کی تقدیر بدل دیں گے ۔حد درجہ دل چسپ بات بھی یہی ہے کہ یہ عوام بہت آرام سے سب کچھ بھول بھال کر مست ہوجاتی ہے اور اپنی ساری تکلیفیں جو اِ ن کی حکمرانوں کی عطا کردہ ہوتی ہیں سب فراموش کرکے دوبارہ ان ہی کے پیچھے چل پڑتی ہے۔میرے خیال سے ملا نصیر الدین کی یہ کہانی بھی ہم عوام پر بہت جچتی ہے کہ ملّا انصیر الدین کا گدھا مر چکا تھا اُس کے بغیر ان کی زندگی بہت مشکل سے گزر رہی تھی نوبت فاقوں تک پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ کئی مہینوں کی محنت و مشقت کے بعد کچھ رقم جمع کی اور ایک نیا گدھا خریدنے کی غرض سے بازار کا رخ کیا۔ کافی تگ و دو کے بعد حسب منشا گدھا خریدا اور گھر کو راہ اس طرح لی کے وہ گدھے کی رسی تھامے آگے آگے چل رہے تھے اور گدھا ان کے پیچھے آ رہا تھا۔

راستے میں چند ٹھگ قسم کے لوگوں نے ملّا کو گدھا لے جاتے ہوئے دیکھاتو وہ اُن کے قریب ہوگئے۔ اِن میں سے ایک آدمی گدھے کے بالکل ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اُس ٹھگ نے موقع دیکھ کر آہستہ سے گدھے کی رسی کھولی اور اپنی گردن میں ڈال لی اور گدھا اپنے دوسرے ساتھیوں کے حوالے کر دیا۔ جب ملّااپنے گھر کے دروزے پر پہنچا اور مڑ کے پیچھے جو دیکھا تو چار ٹانگوں والے گدھے کی بجائے دو ٹانگوں والا گدھا نظر آیا۔ یہ دیکھ کر ملّا سخت حیران ہوئے اور کہنے لگے سبحان اللہ میں نے تو گدھا خریدا تھا یہ انسان کیسے بن گیا؟۔ یہ سن کر وہ ٹھگ بولا آقائے من ! میں اپنی ماں کا ادب نہیں کرتھا تھا اور ہر وقت ان کے درپے آزار رہتا تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے بددعا دی کہ تو گدھا بن جائے۔ چنانچہ میں انسان سے گدھا بن گیا تو میری ماں نے مجھے بازار میں لے جاکر فروخت کر دیا۔ کئی سال سے میں گدھے کی زندگی بسر کررہا تھا۔

تو آج خوش قسمتی سے آپ نے مجھے خرید لیا اور آپ کی روحانیت کی برکت سے میں دوبارہ آدمی بن گیا۔ یہ کہہ کر اس نے ملّاکے ہاتھ کو بوسہ دیا اور بہت عقیدت کا اظہار کیا۔ ملّا کہیہ بات بہت پسند آئی۔ وفور مسرت میں نصیحت فرماتے ہوئے کہنے لگے اچھا اب جائو اور اپنی ماں کی خدمت کرو ۔کبھی اس کے ساتھ گستاخی نہ کرنا۔ ٹھگ ملّا کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہوگیا۔دوسرے دن مّلا نے کسی سے کچھ رقم ادھار لی اور پھر گدھا خریدنے بازار پہنچ گئے۔ ان کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ وہی گدھا ایک جگہ بندھا کھڑا ہوا ہے جو انہیں نے کل خریدا تھا۔چنانچہ وہ اس گدھے کے قریب گئے اور اس کے کان میں کہنے لگے۔ لگتا ہے تم نے میری نصیحت پر عمل نہیں کیا اور پھر گدھے بن گئے ہو۔ قارئین کرام ایسا کب تک چلتا رہے گا کہ ہمارے اپنے وسائل پر ہماری اپنی محنت سے حاصل کمائی پر کب تک ایسے لوگوں کا قبضہ رہے گا اور کب تلک ہم اپنے خون سے ان خون چوسنے والی جونکوں کو
پالتے رہینگے کہ جنہیں اقتدار میں آنے سے پہلے صرف عوام کی فکر ستاتی رہتی ہے۔

مگر اقتدار میں آتے ساتھ ہی صرف اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کی فکر لاحق ہوجاتی ہے عوام جائے کھو ہ کھاتے میں۔ خواہ کسی پارٹی کا لیڈر ہوں یا اُس پارٹی کا رہنما چینل پر گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا ہوتا ہے ۔کہ اس ملک کی اٹھارہ کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہے ہمارا ہر فیصلہ ان کے بغیر ممکن نہیں ہمیں اٹھارہ کروڑ عوام کے مسائل کا احساس ہے۔ ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے اگر ہر پارٹی یہ دعویٰ کرتی ہے کے اٹھارہ کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہے تو میرے نزدیک پھر پاکستان کی آبادی دنیا کی کل آبادی سے بھی کئی زیادہ ہو گئی کیونکہ ہر لیڈر یہی تو کہتا ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہے۔ حالانکہ حالیہ الیکشن جیتنے والی پارٹی کو بھی تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھک ووٹ پڑا جو کہ کل ووٹر کا ملا کر بھی 53 فیصد بنتا ہے غالباً اعداد و شمار میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو معذرت مگر پھر بھی ملا کر تمام پارٹیوں کے ووٹ ڈھائی کروڑ سے زیادہ نہیں بن پائے تو کیسے اٹھارہ کروڑ کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔

اگر ملک کے حالات و تقدیر کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو اسی عوام کو بالا بالا رکھا جاتا ہے اور اپنے مفاد کے پیش نظر وہ تمام معاہدے بھی ہوجاتے ہیں قرض بھی لے لیئے جاتے ہیں۔ پھر میڈیا اور اشتہارات کی ذریعے اُسی پیسے کا بے دریغ استعمال شروع ہوجاتا ہے کہ ہم نے یہسب وطن عزیز کے مفاد میں کیا ہم اس ملک کی اور یہاں کے عوام کی تقدیر سنوارنا چاہتے ہیں ۔اللہ جانے یہ وقت کب آئے گا اور کب اس ملک کی سوئی ہوئی قوم جاگے گی۔ وگرنہ ایسے ہی چالاک ٹھگوں کے ہاتھ اس قوم کو لگتے رہیں گے اوریہ قوم پھر اگلے الیکشن میں جا کر اُسی کے نشان پر مہر لگا آئیں گے کہ پھر……بس اب بہت ہو گیا ملا نصیر جیسی معصومیت اور ٹھگوں والا ڈرامہ بند ہو جانا چاہیے وگرنہ اگلی دفعہ کہانی تبدیل ہو چکی ہو گی اوریہ مفاد پرست منہ چڑا کر کہہ رہے ہونگے پھر گدھے بن گئے ہو۔

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر : امجد قریشی