ڈاکٹر عافیہ کی طرح مظلوم و بے چارہ! نواز شریف

Dr. Aafia Siddiqui

Dr. Aafia Siddiqui

تحریر: حفیظ خٹک
دیکھو، میری اور اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہر سال یوم آزادی یعنی 14 اگست کے دن کو بڑی دھوم سے مناتی تھی اس دن کو منانے کیلئے بچوں، بڑوں میں وہ تحائف تقسیم کرتیں اور اک تقریب کا اہتمام کرتی جس میں ملی نغمے ہوتے، تقاریر ہوتیں، اور خاکے بھی۔ اس کی اس محنت کا ایک ہی مقصد ہوا کرتا تھا کہ قوم کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے بچوں میں ان کے ساتھ بڑوں میں بھی قیام پاکستان کے مقاصد کو پورا کرنے کا جذبہ اور عزم بیدار رکھا جائے۔ اس کے تقریب کے ساتھ ہی وہ ہر قومی دن کے حامل ایام کو منایا کرتی اس کے ساتھ عید کے مواقعوں پر بھی وہ خصوصی اہتمام کیا کرتی تھیں۔ ہائے اور کیا بتاﺅں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی نے چند منٹ کی گفتگو کی اور پھر اک لمبی سی آھ بھر کر پہلے گھر کے مرکزی دروازے کی جانب اور پھر آسمان کی جانب دیکھنے لگیں۔

چند لمحے انہیں اسی طرح دیکھتا رہا اور اس کے بعد یہ سوچ کر کہ وہ کہیں جذباتی نہ ہوجائیں، ان کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ آجائے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑا اور ان سے پوچھا کہ نانی اماں یہ بتائیں کہ آپ اکثر یہ کہا کرتی تھیں اور اب تلک کہتی ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ نے نواز شریف کیلئے بڑی دعائیں کی تھیں، یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ رات کو اٹھ کر تہجد کی ادائیگی کے بعد بھی نواز شریف کیلئے دعائیں مانگا کرتی تھیں۔ نانی اماں کی توجہ حاصل کرنے کے بعد مزید کہا کہ یہ ساری باتیں بھی بقول آپ کے ان دنوں کی ہیں جب نواز شریف کا دوسرا دور حکومت تھا اور پرویز مشرف نے ان جیل میں بند کر دیا تھا۔ نانی اماں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا جی ایسا ہی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جاری تحریک عافیہ موومنٹ کا نام عالمی سطح پراک پہچان بنا چکا ہے شہر قائد میں بلکہ ملک بھر اس تحریک کے رضاکار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ کو نانی اماں ہی کہا کرتے ہیں۔ جب کبھی رضاکار کسی موقع پر نہ امید ہواکرتے تو نانی اماں ان کا حوصلہ بڑھایا کرتیں وہ ذاتی طور پر کبھی بھی مایوس نہیںہوئیں۔
نانی اماں یہ بتائیں کہ جب نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن گیا تو اس نے آپ سے اور عافیہ کے بچوں سے گورنر ہاﺅس میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ قوم کی بیٹی کو ضرور واپس لے کر آئیگا ، لیکن اس وعدے کے بعد آج تلک اس نے اور اس کی پوری حکومت نے اس ضمن میں اب تلک کچھ بھی نہیں کیا،کیوں؟ اور اب جب کہ ہزاروں رضاکار وں سمیت پوری قوم تک یہ کہتی ہے کہ چونکہ نواز شریف نے آپ سے اور عافیہ کی مریم و احمد سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا تھا اس لئے اس کے ساتھ یہ جو بھی کچھ ہوا اسی وعدہ خلافی کا ہی نتیجہ ہے۔ اس نے وعدہ خلافی کی،اس نے اپنی مریم سے عافیہ کی مریم کو تشبیہہ دی تھی لیکن اس کے باوجود اس نے سوائے باتوںکے اور کچھ بھی نہیں کیا، کیوں؟ آپ اس سوال کا بھی جواب دیںاور یہ بھتائیںکہ کیا اس وعدہ خلافی پر آپ بحیثیت قوم کی بیٹی کی ماں کے نواز شریف کو معاف کردیں گی؟

محترمہ عصمت صدیقی (نانی اماں) غور سے باتیں سنتی رہیں اور آخری سوال پر اپنی نظر جھکاتے ہوئے مسکرائیں اور پھر نظر اٹھا کر بولیں کہ پہلے یہ بتاﺅ کہ تم کیا کھاﺅگے؟کیا پیوگے؟ ان سوالات کے ساتھ ہی انہوںنے آواز دی اور کچھ نہیں بہت کچھ منگوالیا، اس گھر کی اس بات کو ، نانی اماں سمیت ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بھی اس عمل سے سبھی واقف ہیں اور خیبر پختونخواہ کے رضاکار تو اکثر یہ بات کہا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ان کی والدہ عصمت صدیقی تو مہمان نوازی میں پختونوں سے آگے ہیں۔ لہذا نانی اماں نے جب تواضع کے سارے احکامات میرے منع کرنے کے باوجود بھی دیدئے تو پھر میری جانب دیکھتے ہوئے بولیں کہ دیکھو، عافیہ کو جلد رہائی دلوانے اور واپس لانے کا وعدہ کرنے کے باوجود اسے پورا نہ کرنے کا دکھ تو ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ ہم کبھی نہیں بھلا پائیں گے اس بات کو کہ جب اوبامہ اپنی صدارت کی مدت پوری کرکے جارہا تھا تو اس وقت بھی اک موقع تھا کہ ہماری حکومت ان سے قوم کی بیٹی کی رہائی کی بات کرتی تو شاید نہیں یقینا وہ رہائی دے دیتے اور آج وہ ہمارے درمیان ہوتیں، کاش کہ ایسا ہوجاتا لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اس نواز شریف نے اپنا وعدہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اب وہ وزیر اعظم نہیں رہا اس نے برسوںتک اپنے وعدے کو پورا نہیںکیا، کیوں نہیں کیا اس کا وہ جواب دے گا، اس دنیا میں نہیں تو اس دائمی دنیا میں تو دے گانا۔۔۔ اللہ اس سے ضرور پوچھے گا، اسے سوچنا چاہئے ہے اب بھی اور سوچنا چاہئے تھا اس وقت بھی لیکن نہیں معلوم کیوں ایسا نہیں ہوسکا ۔

دیکھو، جہاں تک میرے معاف کرنے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تو میں یہ کہونگی کہ وہ باوجود وعدہ خلافی کے میری نظر میں اس وقت وہ حالات کے ہاتھوں مظلوم بن گیا ہے، وہ مظلوم بھی اور بے چارہ بھی ہے۔ عوام نے اتنی بری تعداد میں انہیں ووٹ دیئے تیسری بار اسے حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن کبھی بھی انہوںنے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے ان کے خلاف درج مقدمات کے حوالے سے جے آئی ٹی بنائی جس نے تفتیش کی اور اس کے نتیجے میں انہیں وزارت سے فارغ کردیا گیا ہے ۔دیکھو ، حکومت ملنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے اور پھر حکومت ملنے کے بعد اس طرح سے جانا اس سے بھی بڑی بات ہے۔ میری نظر میں تو وہ اس وقت آزمائش میں ہے اور اسے اللہ سے رجوع کرنا چاہئے۔ جہاں تک میرے معاف کرنے کا تعلق ہے تو تمہارے اس سوال کا میںوہی جواب دونگی جو پہلے دیا تھا کہ نواز شریف بے چارہ بھی ہے اور ان دنوں وہ مظلوم بھی، لہذا میرے معاف کرنے نہ کرنے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں میں کسی کو بھی تکلیف میںنہیںدیکھ سکتی میری ہر مظلوم کیلئے، ہر پریشان حال اور مصائب میں گرے انسانوں کیلئے یہی دعا ہواکرتی ہیں کہ اللہ ان کی مدد فرمائے اور ان کے مصائب و مشکلات کو دور فرمائے،امین

نانی اماں کی یہ باتیں چل رہی تھیں اور راقم کے جذبات اتار و چڑھاﺅ سے دوچار تھے۔ جونہی موقع ملا تو جی چاہا کہ ایک ہی وقت میں اس نام نہاد وزیر اعظم کے خلاف کچھ نہیںبہت کچھ بول دوں، آخر کیوں اس نے وعدہ کر کے پورا نہیں کیا؟ آخر کیوں اسنے اپنی لاڈلی مریم کی طرح عافیہ کی مریم سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیںکیا، آخر کیوں؟ اب جبکہ وہ بھیجوادئیے گئے ہیںاور ان کی جگہ ان کا ہی اک ساتھی عارضی طور پر وزیر اعظم بنادیا گیا ہے، جنہوں نے یہ تک کہا تھا کہ نواز شریف اس وقت بھی یہاں موجود ہیں اور وہی اصل وزیر اعظم ہیںجوکہ انہوں نے اب تلک اپنی طرز حکمرانی سے ظاہر بھی کر دیا ہے۔ اگر نواز شریف کو عافیہ سے متعلق اپنے وعدہ خلافی کی کچھ بھی فکر ہوتی تو اپنے اس جماعت کے وزیر اعظم سے کہتے بلکہ حکم دیتے کہ وہ پہلی فرصت میں یہی کام کرے کہ امریکہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لے کر آئے۔ اگر اب بھی وہ اس طرح کا کوئی اقدام اٹھائیں گے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پوری قوم میںجو ان کے خلاف اک منفی تاثر پایا جارہا ہے اسے مٹنے میں، مثبت حیثیت اختیار کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے۔

پوری قوم ہی نہیں دنیا کے لوگ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے وہ یہ نہ سوچتے اور کہتے کہ جو حال پانامہ لیکس کے اند ر دیگر لوگوں کے نام آجانے کا بعد ان کا انجام ہوا ہے وہی انجام نواز شریف کا بھی ہوا ہے۔ لیکن اس انجام سے ذرا ہٹ کے قوم کی اس امت کی بیٹی کو واپس لانے کا کارنامہ سرانجام دینے کے بعد سابقہ تمام ترمنفیوں کے باوجود ایک مثبت تاثر ابھر آتا۔ آنے والے انتخابات میں ان کو ان کی جماعت کو عوام سر آنکھوں پر بیٹھا تے اور انہیں ووٹ دے کر آئندہ بھی انہی کو ہی حکومت کرنے کا موقع فراہم کردیتے لیکن وقت ہے جو تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہا ہے اور عافیہ ہے کہ امریکہ کی جیل میں کسی ابن قاسم کاانتظار کر رہی ہیں۔ 20کڑور عوام میں، 56سے زائد اسلامی ممالک میں اور ان سے بھی بڑھ کر 200سے زائد ممبران کی اقوام متحدہ میں شاید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے کوئی ابن قاسم نہیں۔۔۔نانی میرے چہرے کے اتار چڑھاﺅ کو اندر کے سارے جذبات کو بھانپ گئیں اور مسکراتے ہوئی گویا ہوئیں کہ دیکھو میں اس دروازے کو روزانہ برسوں سے اس امید پر دیکھرہی ہوںکہ اسی دروازے سے میری عافیہ آئیگی۔ یہ میرا یقین ہے اور میری امید بھی۔ میں نے سب کو معاف کر دیا لیکن ان معاف ہونے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کیا اللہ انہیں معاف کرے گا؟؟؟

تحریر: حفیظ خٹک