ڈاکٹر شاہد مسعود اور گٹر جرنلزم کے پروردہ

Dr. Shahid Masood

Dr. Shahid Masood

تحریر : ایم آر ملک
حکمران سن لیں زینب کی شہادت ایک نہ رکنے والی تحریک کا آغاز ہے ڈاکٹر شاہد مسعود پر تنقید کے نشتر چلانے والوں کے اپنے گریبان تار تار ہیں جسم پر کپڑوں کی حیا آجائے تو لوگ اپنے ننگے پن کو بھول جاتے ہیں میڈیا ہائوسز کے ناتراشیدہ اور بودے اینکرز کا ہدف ڈاکٹر شاہد مسعود کی سچائی ہی کیوں ؟صد حیف کہ اپنے مطالعے ،تہذیب ،تربیت اور ذوق کے اعتبار سے اتنے پست واقع ہوئے ہیں کہ پردہ سکرین پر ان کی اچھل کود اور اوٹ پٹانگ حرکتیں دیکھ کر سامع کو متلی آنے لگتی ہے صحافت میں گھسی ان کالی بھیڑوں کی بدولت صحافت اک زوال مسلسل میں ہے۔

گٹر جرنلزم کے نام سے لکھنے والے کا قلم ازل سے تعصب کی جگالی کرتا رہا اور موصوف کا اسلوب جیسے بیوہ کا بڑھاپا ،تدبر غائب ،علم عنقا اور تحریر مرغ کے وظیفہ زوجیت کی طرح مستعجل ،غیر ذمہ داری ،غیر سنجیدگی اور جہالت کے آسیب نے گلیاں سونی کر دیں ڈھاکہ میں حسینہ واجد سے تمغے کون لیتا رہا ،اور بلوچستان میںرا کی فنڈنگ سے پاکستان دشمن قوتوں کی خاطر بھارتی زبان کو ن بولتا رہا ،اجمل قصاب پر بھارتی بیانیے کو محب وطن حلقے نہیں بھولے ،محب وطن حلقے ایسے ننگ ِ صحافت کو صحافتی طوائف سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔

”انصار عباسی صاحب آپ میرے پاس تشریف لائیں میں آپ کو اس بات کے ثبوت دوں گا کہ حامد میر سی آئی اے اور را کا ایجنٹ ہے لیکن آپ وعدہ کریں کہ انہیں ”نیوز اور جنگ ”میں شائع کریں گے میں اپنے قتل کی ایف آئی آر عثمان پنجابی ،حامد میر اور ٹائیگرز کے خلاف درج کرائوں گا میری چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وہ اس صورت حال کا ”سو موٹو ”نوٹس لیں۔

خالد خواجہ مرحوم کے بیٹے اسامہ خالد نے یہ الفاظ 19مئی2010کو ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے ادا کئے لیکن یہ کیس بھی قابل تحقیق ہے حامد میر کا ٹارگٹ ہمیشہ ہماری آئی ایس آئی رہی مرحوم جنرل حمید گل سابق ڈاریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے ان دنوں جب موصوف نے اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا کہا تھا کہ ”حامد میر نے یہ انٹرویو امریکیوں کے ایما پر کیا اور ان کے کوٹ یا غالباًجیکٹ میں ایک چھوٹی سی چپ chip))موجود ہے جو ان کی نقل و حرکت کو فضا میں موجود سیٹلائیٹ کے ذریعے محفوظ رکھتی ہے اگر ملا عمر جنہوں نے اس سے غالباً وائرلیس پر بات کی تھی بالمشافہ کر لیتے تو مارے جاتے ” اس سچ پر حامد میر نے جنرل حمید گل پر الزامات کی بوچھاڑ کی تھی اور ان کے خلاف ایک کالم بھی لکھا تھا کیا ہم نے اس پر کبھی کوئی مکالمہ کیا کہ میڈیا ہائوسز اور صحافی کام کیسے کرتے ہیں اس کا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔

عصر حاضر کی کیپٹیلسٹ اکانومی میں اگر کوئی ادارہ یہ دعویٰ کرے کہ سچ صرف وہ بتاتا ہے تو وہ سفید جھوٹ بولتا ہے کیونکہ زیادہ تر نیوز فیڈ ہوتی ہے اور ایک منظم انداز میں اس پر عمل کیا جاتا ہے کچھ اس کی زور شور سے تائید کرتے ہیں ، کچھ اس کی جزئیات کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں اور کچھ اس پر اپنا رد عمل شو نہ کرنے کی قیمت وصول کرتے ہیں اور اس کا مخالف گروپ اس کو رد کرتا ہے۔

پاکستان میں کرپشن پر بولنے والے محض چند صحافی ہیں جن میں ڈاکٹر شاہد مسعود بھی نمایاں ہیں ہر صحافی کی طرح ان کے بھی ذرائع ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں عزیر بلوچ سے این آر او تک ہر قسمی کرپشن پر وہ بے لاگ بولتے رہے محب وطن شخص جذباتی ہوتا ہے وہ دھرتی اور دھرتی سے وابستہ محبت میں جنون کی حد تک گرفتار ہوتا ہے ڈاکٹر شاہد مسعود بھی انہی خصوصیات سے دوچار ہے انہیں جب خریدنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو ان کی جذباتی کیفیت اور حب الوطنی کو نشانہ بنایا گیا میر جعفر اور میر صادق کی قبیل کے افراد نے اپنی بحث کو ڈاکٹر شاہد مسعود پر تنقید پر فوکس کرلیا لیکن زینب سے قبل ریپ کا شکار ہونے والی بیٹیوں کے جرم میں ریاستی پولیس کی گولیوں سے بھونے جانے والے مدثر کی موت ،زینب کی موت پرسراپا احتجاج دو افراد کاپولیس کے ہاتھوں قتل ایک بحث یہ بھی ہے کہ سٹیٹ بنک نے ان کی سچائی کی نفی کی ہے کیا یہ وہی سٹیٹ بنک نہیں منی لانڈرنگ کا جرم ثابت ہونے کے باوجود جس کے پاس اسحاق ڈار کا کوئی ثبوت تک نہ ملا جس نے منی لانڈرنگ کرنے والی ڈالر گرل ایان علی کو پارسا ثابت کیا یہ وہی سٹیٹ بنک نہیں جس کی سر پرستی میں ہر سال 12ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

تحقیقی صحافت کے علمبردار ضیا شاہد نے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کے موقف پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ سا نحہ قصور میں ایک حکومتی ایم پی اے اور ایک وکیل 2015میںپونے تین سو بچوں کے ساتھ درندگی کا کھیل کھیلنے والوں کے سہولت کار تھے قصور سے خبریں کے جاوید ملک نے ضیا شاہد کی کھلی کچہری میں اس کی باقاعدہ نشاندہی کیجرس احتجاج شہروں ،دیہاتوں اور گلیوں میں نکلی تو نام نہاد گڈ گورننس منہ چھپاتی پھرے گی جاتی امرا کے شریف نہیں جانتے کہ محرومی ہر دور میں پرامن احتجاج تک محدود نہیں رہتی عوامی جذبات کی لفاظی کرنے والے ڈرامہ بازوں کے اقتدار کے دن گنے جاچکے 36 سالہ اقتدار کے انہدام کو روکنا اب ناممکن ہوگا ایسی جمہوریت پر ہزار بار لعنت جس کے گماشتوں کے ہاتھوں قائد کے پاکستان میں بیٹیوں کی ناموس لٹ رہی ہے اور ان کی لاشیں کچرے کے ڈھیروں سے ملتی ہیں۔

بکائو میڈیا اور لفافہ دانشوروں کا عمومی شعور کو بھٹکانے کا دور گزر چکا ضیائی آمریت سے جنم لینے والی فسطایت کے بے ہودہ سیاسی غلاموں ،دہشت گرودوں کے سہولت کاروں نے تعلیمی ادارے اور کھیل کے میدان قبرستان بنا دیئے ذلتوں کی دلدل میں دھنسی حکمرانی کیلئے ابھی رسوائیوں کے امتحاں اور بھی ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک