ڈاکٹر شکیل پتافی کی غزل گوئی، جدیدیت کے تناظر میں

Poetry

Poetry

تحریر : رفیق بزدار
زندگی یا شاعری کا ایک دور ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا دور شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو شاعری کا قیام ِ پاکستان کے بعد کاجائزہ لیا جائے تو اب تک اردو غزل گوئی کے دو ادوار گزر چکے ہیں ۔جدیدیت کے تناظر میں پاکستانی غزل اب اپنے تیسرے دور میں محوِ سفر ہے۔پاکستانی غزل اپنے اس مختصر سے سفر میں زمانے کے تھپیڑوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ۔سابقہ دونوں ادوار اور موجودہ شاعری پڑھ کر وطنِ عزیز کے حالات و واقعات کا بخوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔عصرِحاضر کا ادیب و شاعر جدیدیت کو اپنانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے ۔جدید غزل کے نمائندہ اوصاف بھی یہی ہیں کہ اس میں ایک نیا پیکر جنم لے رہا ہے بقل ڈاکٹر وزیرآغا ”نفسیات کی زبان میں اس نئے پیکر کو شاید(Sise old Man)کا نام ملے مگر میں اسے ”دوسری ہستی” (The Other)کہہ کر پکاروں گا ۔اس دوسری شخصیت نے اپنے وجود کا اعلان کر کے پہلی شخصیت میں دراڑیں سی پیدا کر دی ہیں اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرنے لگی ہے ۔یوں کہنا بھی غلط نہیں کہ پہلی شخصیت شاعر کی ذات کا وہ اجتماعی رخ ہے جو صدیوں کے مدو جزر کے بعد ایک اکائی کی صورت میں مرتب ہوا تھا لیکن جو اب نئے زمانے کی بے پناہ کلبلاہٹ کی زد میں آ کر جگہ جگہ سے تڑخنے لگا ہے۔

پاکستان میں نئی اردو غزل کے شاعروں میں ڈاکٹر شکیل پتافی کا نام درخشاں و ضوفشاں ہے ۔نئے خیالات ،منفرد اسلوب، نئی حسیت اور اچھوتے فکر و فلسفہ میں جدیدیت کو اپنانے والے ڈاکٹر شکیل پتافی بلا شبہ ایک عہد ساز ادیب و شاعر ہیں ۔ڈاکٹر شکیل پتافی کی غزل گوئی جاوید احسن خان کی رائے میں :”جدید فیشن ہو یا شاعری دونوں نئی پود کے لئے بڑی کشش رکھتے ہیں ۔شکیل پتافی کی غزل اپنے مزاج ، ڈکشن اور وژن کے اعتبار سے بجا طور پر جدید ہے ۔مگر وہ سکہ بند جدیدیوں کی طرح بے معنی ورزش نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے جدید پیرایہء اظہارسے غزل کے روایتی مضامین میں بھی نئی روح پیدا کر دیتے ہیں ۔” ڈاکٹر شکیل پتافی نے روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اردو غزل گوئی کو ایک نئی سمت ،نئی روشنی ،نئی خوشی ،نیا آہنگ ، نیا آورد اور نئے فکر و فلسفہ سے روشناس کرایا ۔انسانی حیات کو درپیش چیلنجز ،فطرت کی بھول بھلیاں،کرہء ارض کی ارتقائی تبدیلیوں اور سب سے بڑھ کر انسانیت کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل پتافی نے اپنے جذبات و احساسات کو اس انداز سے اپنی شاعری میں سمویا کہ آپ کی شاعر ی نہ صرف تاریخی ورثہ بن گئی بلکہ اس شاعری میں ہر دور کے لئے ہم آہنگی کی خصوصیات بدرجہ اتم ہیں ۔بے تکلفی اور سادہ الفاظ نئی شاعری کے نمائندہ اوصاف ہیں ۔اپنے خیالات کو زبان کا لباس پہنانے اور ہر آن بدلتی ہوئی زندگی کی روداد کو بیان کرنے کے لئے جو ملکہ ڈاکٹر شکیل پتافی کے حصے میں آیا وہ انتہائی کم یاب ہے ۔وطنِ عزیز کے حالاتِ حاضرہ پر صاحب ِ موصوف کی امیجری ملاحظہ فرمایئے؛۔
مصور ہوں ،ہمیشہ جنگ کے منظر بناتا ہوں
بموں کی گرد میں اڑتے بچوں کے سر بناتا ہوں

ڈاکٹر شکیل پتافی کی غزل کے چہرے پر جو شوخی ،شگفتگی اور کشش ہے ،وہ شاید ہی کسی اور غزل گو کے چہرئہ غزل پر ہو ۔مطلع اتنا پر کشش ہوتا ہے کہ قاری پوری غزل پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔آپ ماہرِ موسیقی ہیں ،تبھی توآپ کی شاعری میں ترنم اور نغمگی ہے ۔ایک حقیقی شاعر ہونے کے ناطے آپ علمِ عروض پر بھی مکمل دسترس رکھتے ہیں آپ نے سیاست ،معاشرت ،تاریخ اور فلسفہ پرگہری نظر رکھی اور بے دھڑک لکھا ۔روشن دماغ اور دلِ ضوفشاں رکھنے والے اس شاعر کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا رقمطراز ہیں ؛ ”شکیل پتافی کی غزل کا مرکزی نقطہ ”گھر ” ہے ۔جسے اس نے دیوارو در کے ساتھ باندھ رکھا ہے ۔مگر اس کی چھت سے ایک پرندے کی طرح اڑنا اور فرازِ فلک پر بیٹھے ستارے تک پہنچنا اس کا نوشتہء تقدیر ہے ۔مگر خوبصورت بات یہ ہے کہ وہ ستارے کو آنسو میں منقلب کر کے اور اسے اپنی پلکوں پر سجا کر واپس اپنے گھر کو لوٹتا بھی ہے ۔گھر سے آسمان اور آسمان سے دوبارہ گھر پہنچنے کی کہانی میں کسک اور دکھ سے عبارت سفر کے جو مراحل آئے ہیں انھیں شکیل پتافی نے بڑے اجلے اور فروزاں اسلوب میں اس طور پیش کر دیا ہے کہ اس کی غزل جگمگا اٹھی ہے ۔شکیل پتافی ایک ایسا شاعر ہے جس کے ہاں بڑے امکانات ہیں ۔میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اگر اس نے اسی پیرائے میں اپنے سفر در سفر کی تہہ در تہہ جہات کو سامنے لانے کی کوشش جاری رکھی تو اسے نئی غزل کے حوالے سے بڑی اہمیت حاصل ہو جائے گی۔”

فی زمانہ سائنسی دور ہے ۔نت نئی حیرت انگیز سائنسی ایجادات نے جہاں حیاتِ انسانی کے دیگر پہلوؤں کو متاثر کیا ،وہاں شاعری پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوئیں ۔دنیا اب گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بعداب سوشل میڈیا نے انسانی فکر اور معاشرت میں انقلاب بر پا کر دیا ۔شبانہ روز بدلتے حالات کے پیش ِ نظر ڈاکٹر شکیل پتافی نے اپنی شاعری میں وہ تاثیر پیدا کی کہ جس سے آئندہ نسلیں بھی اثر لیتی رہیں گی ۔شاعری ہمیشہ وہ زندہ رہتی ہے کہ جو نہ صرف اپنے عہد سے ہم آہنگ ہو بلکہ آنے والے وقت میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھے ،ہر دور کے حالات سے ہم آہنگ رہے ،اس اعتبار سے شکیل پتافی کی غزل گوئی کا جائزہ لیا جائے تو آپ نے انتہائی ہوشیاری سے جدت کا پلو تھاما ۔بقول امجد اسلام امجد : ”شکیل پتافی کی شاعری جدید اردو شاعری کے مروجہ اورتجرباتی ،دونوں طرح کے انداز اور مضامین کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ پیرایہء اظہار میں بھی تازگی کا خیال رکھتا ہے اور اس کے اشعار میں بیان کردہ ”وارداتیں”بھی اس کے باطن اور عصری شعور کی کامیاب نمائندگی کرتی ہیں ”۔ ڈاکٹر صاحب کی غزل گوئی کا مکمل جائزہ لینے اور افکار پر لکھنے کے لئے ہزاروں صفحات درکار ہیں بلا شبہ آپ پاکستان کے نمائندہ شعراء میں ایک معتبر نام ہیں ۔نئے امکانات کے اس منفرد شاعر کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے؛۔
فکر و احساس کا یہ قتل نئی بات نہیں
دامنِ وقت پہ صدیوں سے لہو برسا ہے

اندھیری شب میں کہیں روشنی فریب نہ دے
دیے کے ساتھ دلِ ضوفشاں بھی رکھتا ہوں

فصیلِ جسم گری ریت کے مکاں کی طرح
وہ تیری یاد کا جھونکا تھا یا قیامت تھی

زمانہ مجھ سے خفا تھا ترے حوالے سے
مگر شکیل تجھے مجھ سے ہی عداوت تھی

Rafiq Buzdar

Rafiq Buzdar

تحریر : رفیق بزدار
03318624473
ای میل rafiqbuzdar73@gmail.com