زلزلے اجتماعی اعمال میں کوتائی دین سے دوری کا نتیجہ ہیں، مفتی محمد نعیم

Mufti Mohammad Naeem

Mufti Mohammad Naeem

کراچی : جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس وشیخ الحدیث مفتی محمد نعیم نے کہا کہ معاشرے کی اصلاح کیلئے سنت نبوی ۖکو عام کرنے کی ضرورت ہے، دین کے دوری کے باعث معاشرے میں جھوٹ، وعدہ خلافی، بددیانتی، بہتان، غیبت، رشوت وسود خوری عام ہورہی ہیں، علماء ممبر ومحراب سے تفرقات پر بات کرنے کے بجائے اصلاح معاشرہ پر توجہ دیں۔

اتوار کو جامعہ بنوریہ عالمیہ میں ائمہ مساجد اور تاجروں کے مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی محمد نعیم نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیاہے اوراگرکوئی شخص تجارت کو اللہ کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرتاہے تو وہ بھی عبادت ہے الغرض اللہ کی خوشنودی اور سنت رسول کے مطابق کیے جانے والے ہر کام کا اجر ملتاہے،سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کے باعث مسلم معاشرہ طرح طرح کی برائیوں سے سے بھرچکاہے ، چوری ، ڈکیتی ، راہزنی ، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، بددیانتی ، بہتان ، غیبت ، رشوت خوری میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں، جرائم کی روک تھام کیلئے بہترین نسخہ یہی ہے کہ لوگوں کو سنت پر عمل کی دعوت دی جائے۔

انہوں نے کہاکہ علماء کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے سے ان تمام برائیوں کے سدباب اور فروغ سنت کیلئے کمربستہ ہوجائیں اور ممبر ومحراب میں باہم تفرقات اور صرف واقعات بیان کرنے کے بجائے ان امراض کے سدباب کو اپنا موضوع بنائیں ، انہوںنے کہاکہ اسلام دنیا میں تمام انسان کوامن و امان کی زندگی بسر کرنے کاسلیقہ سیکھاتا ہے مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی امانت ہے ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح کی فکر کرے معاشرے میں پھیلنے والے امراض و مسائل کی اصلاح کیلئے کمربستہ ہوجائے، انہوں نے کہاکہ اسلامی تعلیم کا بنیادی مقصد اصلاح انسانیت ہے اور یہ مقصد صرف اس وقت ہی حاصل ہوسکتاہے کہ جب اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گذاری جائے، اللہ تعال نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ یہ کام لگایا کہ معاشرے کو برائیوں سے پاک کریں اور اس طرح اصلاح کریں کہ وہ دنیا کا مثالی معاشرہ بن جائے او معاشرے کے افراد دنیا کی بہترین افراد بن جائیں،آپ صلی ٰللہ علیہ وسلم کی محنت اور اسلام پر عمل کے باعث خلفائے الراشدین کے دور میں تاریخ گواہ ہے کہ اگر ایک زیور سے لدھی کوئی خاتون رات کی تاریخی میں تنہاہ بیابان و جنگل کا سفر کرتی تو اس کی حفاظت کرنے والے تو بہت ملتے تھے مگر اس کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات کوئی نہیں کر سکتا تھا۔