اقتصادی راہداری روٹ پر اتفاق خوش آئند

 Economic Corridor Route

Economic Corridor Route

تحریر: مہر بشارت صدیقی
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے روٹ پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کر لیا ہے، سب سے پہلے مغربی روٹ تعمیر کیا جائے گا، آئندہ مالی سال 2015ـ16ء کے بجٹ میں رقم مختص کر کے کام کا آغاز کر دیا جائے گا، صوبوں کے خدشات دور کرنے کیلئے ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا، جبکہ منصوبے کی بروقت تکمیل کیلئے ایک نگراں پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی۔وزیراعظم ہائوس میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق رائے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے شرکا کو منصوبے سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ کانفرنس کے افتتاحی کلمات اور اختتامی خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق کیا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ، جس پر تمام سیاسی قائدین کا شکرگزار ہوں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 21 ویں صدی معاشی انقلاب کی ہے ، یوم تکبیر کے دن کی مناسبت سے معاشی انقلاب کا آغاز ہو رہا ہے ، اقتصادی راہداری سے مساویانہ ترقی کو فروغ ملے گا، کوریڈور ترقی یافتہ ملک بننے کے لئے پاکستان کے خواب کی تکمیل کرے گا۔

Ahsan Iqbal

Ahsan Iqbal

منصوبہ نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے مدد گار ہوگا بلکہ علاقائی ممالک کے لئے بھی فائدہ مند ہو گا۔ منصوبے کے تین روٹس میں سے سب سے پہلے مغربی روٹ کی تعمیر پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہے ، جس کے مطابق حسن ابدال، میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڑوب کے علاقوں کو گوادر سے ملایا جائیگا، منصوبے کو بروقت مکمل کرنے کے لئے ایک نگراں کمیٹی بنائی جائے گی، جو حکومت کو ہر ماہ رپورٹ پیش کرے گی، جبکہ اس منصوبے پر صوبوں کے خدشات دور کرنے کے لئے ایک ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا جائیگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو شفاف بنانا چاہتے ہیں، انہوں نے اہم قومی ایشوز پر اتفاق رائے سے فیصلے کرنے پر سیاسی قیادت کی تعریف کی اور کہا کہ قومی معاملات پر اتفاق رائے اور مل بیٹھ کر فیصلے کرنے سے ملک میں جمہوریت کو استحکام ملے گا، گزشتہ دہائیوں میں سیاست دان آپس میں لڑتے رہے ہیں، سیاست دانوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے ، ہمارا سیاسی نظام پختہ ہو رہا ہے ، چین ہم سب کا سچا دوست ہے ، چین نے کبھی کسی جماعت سے تفریق نہیں کی۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبے سے پورے ملک میں خوشحالی آئے گی، کسی صوبے سے زیادتی نہیں ہوگی، یہ ایک سڑک کا نام نہیں ہے ،34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری توانائی کے شعبے میں کی جارہی ہے اور توانائی کے سب سے زیادہ منصوبے سندھ میں لگائے جائیں گے ، اقتصادی راہداری روٹ کو مشرقی، مغربی اور وسطی تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، مغربی روٹ بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے گزرے گا، مرکزی روٹ سکھر اور انڈس ہائی وے کو قراقرم ہائی وے سے جوڑے گا، مشرقی روٹ اسلام آباد سے فیصل آباد اور ملتان موٹروے کو سکھر کے راستے گوادر تک لے جائیگا۔ مغربی روٹ پر سب سے پہلے کام شروع کیا جائیگا، اقتصادی راہداری سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا، کراچی میں میٹرو بس کا منصوبہ بھی شروع کیا جائیگا اور وفاق 15 ارب روپے کی معاونت کرے گا۔ رتو ڈیرو بسیمہ شاہراہ 2017 ء تک مکمل ہو جائے گی ،تھر اور لاکھڑا میں توانائی زون بنانے کی بھی تجویز زیر غور ہے ، اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت سکھر، لاڑکانہ، کراچی اور بن قاسم میں صنعتی زون قائم کئے جائیں گے ، بلوچستان میں بھی اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت بہت سے ترقیاتی منصوبے بنائے جارہے ہیں، جیکب آباد، کوئٹہ، تفتان اور کوئٹہ سے پشاور تک ریلوے ٹریک کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔

Pakistan and China

Pakistan and China

چمن کے راستے افغانستان کے علاقے قندھار تک شاہراہ کا منصوبہ زیر غور ہے ، خیبر پختونخوا میں بھی بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع ہوں گے ، جن میں نوشہرہ سے چترال تک سڑک تعمیر کی جائے گی، پشاور رنگ روڈ اور سوات ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے ، گلگت اور اسکردو میں صنعتی زونز کا قیام عمل میں لایا جائیگا اور پشاور سے جلال آباد تک ریلوے ٹریک کی بھی تجویز زیر غورہے ، شرکا کو وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی بریفنگ دی۔ بعد ازاں اے پی سی کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں نے اقتصادی راہداری پر عمل درآمد کی متفقہ منظوری دی ہے۔ اقتصادی راہداری کے تحت روڈ، ریل نیٹ ورکس ایئرپورٹس اور سی پورٹس تعمیر کی جائیں گی اور اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی تعمیر ترجیحی بنیادوں پر مکمل کی جائے گی۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت سید خورشید شاہ، تحریک انصاف کے وفد کی قیادت شاہ محمود قریشی، اے این پی کے اسفند یار ولی، ایم کیو ایم کے فاروق ستار، جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی کے سراج الحق، بی این پی کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور مسلم لیگ (ق) کے وفد کی قیادت مشاہد حسین سید نے کی۔ محمود خان اچکزئی، حاصل خان بزنجو، اعجاز الحق، آفتاب احمد خان شیرپائو، پروفیسر ساجد میر، سید غازی جمال اور فاٹا سے الحاج شاہ جی گل، پیر اعجاز ہاشمی نے اپنی متعلقہ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کی۔

کانفرنس میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک، وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ، سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی، وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر برائے سیفران عبدالقادر بلوچ، وزیراعظم کے معاونین خصوصی عرفان صدیقی، طارق فاطمی، بیرسٹر ظفر خان اور خواجہ ظہیر احمد نے شرکت کی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ ترقی اور امن کی طرف حکومت کوئی بھی قدم بڑھائے تعاون کریں گے’ اقتصادی راہداری میں فاٹا کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا’ چین نے اقتصادی راہداری کے ذریعے اپنے 8 پسماندہ صوبوں کو ترقی یافتہ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حکومت کو بھی اپنے پسماندہ اور بدامنی کے شکار علاقوں کو خوشحال اور پرامن بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کے مستقبل کی ترقی کو یقینی بنانے کا منصوبہ ہے ‘ چین نے اپنے پسماندہ علاقوں کی ترقی کا منصوبہ بنایا۔ 28 مئی کو پاکستان ایٹمی قوت بنا اس دن کی پاکستان میں بڑی اہمیت ہے۔ آج پاکستان کے معاشی مستقبل کے حوالے سے اتفاق رائے ہونے پر یہ دن اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کی دوستی کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا منصوبہ ہے۔ گوادر تا کاشغر شاہراہ ملک میں انقلاب لائے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ راہداری منصوبے کے حوالے سے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو گی’ پارلیمانی کمیٹی صوبوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرے گی کہ کونسے منصوبے کہاں لگنے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنماء فاروق ستار نے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری کے صرف مغربی روٹ پر اتفاق رائے ہوا ہے ، اقتصادی راہداری منصوبے کی مختلف راہداریاں ہیں جن پر ابھی مختلف آراء مووجود ہیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے پر شفافیت کی ابھی بہت کمی ہے ، اقتصادی راہداری منصوبے پر سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ آئینی اداروں کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے، ماس ٹرانزٹ منصوبہ لاہور میں بن سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری معاملے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے ، پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، 28 مئی کو ایٹمی قوت بننے کے حوالے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اقتصادی مستقبل کے حوالے سے بھی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے اظہار یکجہتی کیا۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کے قومی معاملے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جس پر قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، 28 مئی پاکستان کی تاریخ میں تاریخی دن ہے، اس دن پاکستان ایٹمی قوت بنا، اب 28 مئی کو پاکستان کے اقتصادی مستقبل کے حوالے سے بھی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

Basharat Siddiqi

Basharat Siddiqi

تحریر: مہر بشارت صدیقی