معاشی بحران حقیقت یا فسانہ

Economic Crisis

Economic Crisis

تحریر : عابد رحمت
کامیاب اقوام کے پیچھے جہاں اور کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں وہیں معیشت کا استحکام ایک بڑا سبب اور محرک ہوتا ہے۔ دنیا پر حکمرانی کرنے والے ممالک معیشت کے بل بوتے پر ہی دوسرے ممالک کوچت کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکا سالانہ ساڑے سات ہزار ارب ڈالر کی اشیاء پیداکرتاہے ، چین ساڑھے دس ہزارارب ڈالر،جاپان ساڑھے چار ہزار ارب ڈالر اور جرمنی چارہزارارب ڈالرکی اشیاء وخدمات پیدا کرنے میں سرفہرست ہے ۔اس لحاظ سے امریکاپہلے نمبرپر، چین دوسرے نمبرپر، جاپان تیسرے اورجرمنی چوتھے نمبرپردنیاکی سب سے بڑی معیشتیں رکھتے ہیں ۔یہی ممالک پوری دنیاکے کرتادھرتابنے پھرتے ہیں ۔معیشت کے حوالے سے مشرق ایشیا، جنوبی کوریا، سنگاپوراورتائیوان وغیرہ بھی صنعتی میدان میں اپنی دھاک بٹھارہے ہیں ، ان ممالک کی معیشت بھی ترقی کی جانب رواں دواں ہے ۔اس کے برعکس جب کسی ملک کامعاشی نظام بگڑجائے توپھروہ ملک دیوالیہ ہوکرمحکومی میں چلاجاتاہے ۔معیشت کے حوالے سے مضبوط ممالک ایسے ملک کونگلنے میں ذرابھی تاخیرنہیں کرتے اوربالآخروہ ملک صفحہ ہستی سے مٹ جاتاہے ۔حرف آخریوں کہاجاسکتاہے کہ معاشی استحکام سے ہی ملک وملت کی بقاہے۔

پاکستان کاشماراگرچہ بہت دورجاکرہی سہی مگرترقی کرتے ممالک میں ہوتاہے ۔گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان کی معاشی صورتحال زیربحث ہے اوراس کاابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا۔اس بارے میں چہ مگوئیاں بھی ہورہی ہیں اورگرماگرم بحث بھی ، حکومت کااصرارہے کہ معیشت ترقی کی طرف گامزن ہے جبکہ دیگراداروں اورعوام کاخیال بلکہ یقین ہے کہ معیشت دن بدن ابتری کاشکارہورہی ہے ۔حقیقت کیاہے ؟ یہ توآنے والے حالات اوروقت ہی بتائے گا، بہرکیف ہم اب تک پیش آنے والی صورتحال کومدنظررکھتے ہوئے کوئی نتیجہ اخذکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس سال پاکستان میں غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری میں 155فیصداضافہ ہواہے ، یعنی یہ سرمایہ کاری 37فیصد سے 301ملین ڈالربڑھی ہے ۔یہ سرمایہ کاری امریکاسے 202ملین ، ملائیشیاسے 110ملین اورچین سے 258ملین ڈالرپرمشتمل ہے ۔پرائزواٹرہائوس کے مطابق 2030ء تک پاکستان دنیاکی بیسویںبڑی معیشت ہوگا۔پیوریسرچ سنٹرکے سروے کے مطابق 47فیصدلوگوں نے پاکستان کی معیشت کوبہترکہاہے ، یہ شرح 2014ء کے مقابلے 10فیصدزیادہ ہے ۔یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ عالمی ادارے بلوم برگ نے پاکستان کودنیاکے 10بہترین معاشی ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیاہے۔یہی وہ لمحہ تھاکہ جب آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی ریٹنگ کوبہترقراردیا۔اسٹاک ایکسچینج نے ایک سال کے اندر16فیصدتک نموحاصل کی اوریوں یہ دنیاکی 10بہترین مارکیٹوں میں شامل ہوگئی ۔غیرملکی ماہرین اقتصادیات نے یہ بھی نویدسنائی کہ اگرپاکستانی معیشت کی یہی رفتاررہی تو2050ء تک پاکستان کئی بڑی معیشتوں کوپیچھے چھوڑکراٹھارویں بڑی معیشت ہوگا۔

عالمی بینک بزنس رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے پاکستان کی کارکردگی 190ممالک میں سے 144ویں نمبرپرپہنچ چکی ہے ۔یہ بات بھی قابل غورہے کہ پاکستان جنوبی ایشیاء میں وہ واحدملک ہے کہ جس کی ا نڈیکس میں تبدیلی واضح طورپردیکھی گئی ہے ۔آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹن لیگارڈکاکہناہے کہ پاکستان ایمرجنگ مارکیٹ معیشتوں میں شامل ہوچکاہے اوریہ معاشی بحران سے نکل کرترقی کی طرف گامزن ہے ۔افراط زرکے حوالے سے پاکستان کے ایک سرکاری ادارے کے مطابق ماہ اگست میں افراط زرکی شرح 1.72ریکارڈکی گئی جوکہ گزشتہ 12برس کی کم ترین شرح ہے ۔اسی طرح اس وقت ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر18.7ارب ڈالرہیں ، بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیل زربلندہوئی ہے جواوسطاً 1.5ارب ڈالرماہانہ کے حساب سے ہے ۔فرم جونزکینگ لائن سے پتاچلتاہے کہ پاکستان میں افراط زرکم ہوکر3فیصدرہ گیاہے ، یہی شرح کچھ سال قبل15فیصدتھی ۔برآمدات میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہواہے ،توقع کی جارہی ہے کہ برآمدات تقریباً25ارب ڈالراوردرآمدات 34ارب ڈالرتک پہنچیں گی۔

یہ سب کس قدرخوش کن اورخوش آئندرپورٹس اورحقائق معلوم ہوتے ہیں مگریہ تصویرکاایک رخ ہے ۔تصویرکادوسرارخ اس سے کئی گنا بھیانک ہے، یہ مذکورہ رپورٹس ان لوگوں کی ہیں جولوگ خودتوپیسوں میں کھیلتے ہیں مگرانہیں یہ احساس نہیں کہ ملک میںبسنے والے لوگ کس حال میں ہیں ، ان کی معاشی حالت کیاہے، عوام کواس بات کازیادہ احساس ہے کہ وہ کس چکی میں پس رہے ہیں۔ حکومت انہیں جھوٹے دلاسے اورتسلیاں دینے میں لگی ہوئی ہے ۔اب ذراتصویرکادوسرارخ بھی دیکھ لیاجائے ۔ آئی ایم ایف کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق پاکستان اس سال 16.2ارب ڈالرزکے خسارے میں مبتلاہے ۔یہ 32.6ارب ڈالرخسارہ برداشت کرچکاہے ۔صرف چین ہی سے ہمارااقتصادی خسارہ 9ارب ڈالرسے متجاوزہے ۔اربوں روپے کے پراجیکٹس بربادکیے جاچکے ہیں اورمنی لانڈرنگ کے ذریعے کھربوں روپے ملک سے باہربھجوانے کاکام ہنوزجاری ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرآٹھ ارب ڈالرکی سطح سے گرچکے ہیں ۔پانچ برس پہلے ملک میں نجی سرمایہ کاری کاحجم 272ارب روپے تھامگراب یہ اپنی سطح سے کم ہوکر177ارب روپے سے بھی کہیں کم رہ گیاہے ۔حکومت بینکوں سے سینکڑوں ارب روپے قرض لینے کے باوجودبھی نجی کمپنیوں کوادائیگیاں کرنے سے قاصرہے ۔یہ خبرکس قدرروح فرساہے کہ ہم اپنے بجٹ کاچالیس فیصدسے زائدحصہ ،لئے گئے اربوں ڈالرقرضوں کی ادائیگی میں خر چ کررہے ہیں ۔اس وقت ہماری قومی معیشت کو100ارب ڈالرکے نقصان کادھچکالگ چکاہے ۔ہمارے ہاں ٹیکس چوری کایہ حال ہے کہ فیڈرل بورڈآف ریونیواورورلڈبینک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک کی 57فیصد متوازی معیشت ایسی ہے کہ جس پرٹیکس اداہی نہیں کیاجاتا۔اگراس معیشت پرٹیکس اداکیاجائے توملک کی سالانہ آمدنی 2.5کھرب روپے سے بڑھ کر4کھرب روپے تک باآسانی ہوسکتی ہے ۔یہ رپورٹ قابل تشویش ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی چارٹیلی کام کمپنیاں اپنے صارفین سے ماہانہ4ارب روپے ودہولڈنگ ٹیکس کی صورت میں وصول کرتی ہیں اور صارفین سالانہ ان کمپنیوں کو48ارب روپے بطورٹیکس اداکرتے ہیں مگرافسوسناک پہلوتویہ ہے کہ مسلسل سات آٹھ سال سے یہ ٹیکس حکومتی خزانے میں جانے کی بجائے کہیں اورجارہاہے اوریوں قومی خزانے کوسینکڑوں ارب روپے کانقصان پہنچایاجارہاہے ۔سرکاری اہلکاروں نے 31,477لوگوں سے 22ارب روپے ہتھیالئے، متروکہ املاک آرگنائزیشن، فرسٹ وومن بینک، نیشنل بینک آف پاکستان اورحبیب بینک لمیٹڈکے اہلکاروں نے مل جل کرقومی خزانے کوخوب لوٹاہے ۔حکومت کی شہ خرچیاں اورناکام اقتصادی پالیسیاں اپنی جگہ معیشت کوکمزورکررہی ہیں۔

اب اگرقرضوں کی بات کی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ پاکستان اس وقت 83ارب ڈالرزکے بیرونی قرضوں تلے دفن ہوچکاہے ۔جنرل قمرجاویدباجوہ نے بھی قرض کی بڑھتی ہوئی اسی شرح کی جانب اشارہ کیاتھا۔ حکومت موجودہ دوسالوں کے دوران قومی بینکوں سے بے تحاشاقرض لے چکی ہے اوریہ سلسلہ رکنے کانام ہی نہیں لے رہا۔حکومت آئی ایم ایف سے 18بیل آئوٹ پیکجزلے چکی ہے ۔صدرمملکت ممنون حسین بھی اپنے خطاب میں 14ہزار8سوارب کے قرضوں کی حقیقت واضح کرچکے ہیں ۔ہم ہرطرف سے قرضوں میں جکڑے جاچکے ہیں مگرپھربھی ہمیں آئی ایم ایف سے 140ارب درکارہیں ۔مزید6ماہ کے لئے 22ارب ڈالرزکی ضرورت ہے جبکہ ا سٹیٹ بینک کے مطابق بیرونی معاملات کی انجام دہی کے لئے 18ارب ڈالرزچاہییں ۔ان حقائق کے بعداگراب بھی کہاجائے کہ ملکی معیشت کواستحکام حاصل ہے توپھرمیرے خیال میں اسے بجھتے چراغ کی لوکے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

Muhammad Abid

Muhammad Abid

تحریر : عابد رحمت