اقتصادی راہداری منصوبہ اور گلگت بلتستان

India and Pakistan

India and Pakistan

تحریر: شفقت راجہ
بین الاقوامی سیاست اور تعلقات ہمیشہ قومی مفادات کی بنیاد پر استوار اور پروان چڑھتے ہیں چاہے انکی نوعیت مثبت یا منفی ہی کیوں نہ ہو۔ مشترکہ مفادات قوموں کو ایک دوسرے کے قریب اور مفادات کا تصادم ہی اختلافات کا باعث بنتا آیاہے۔ پاک بھارت تعلقات میں مسئلہ کشمیر پرتناو انہی مفادات کا تصادم ہے جنکی بنیاد معاشی ضروریات یعنی پانی اور جس کا منبہ یا گزرگاہ ریاست جموں کشمیر و تبت ہاء ہے۔ ١٩٤٧ میں برصغیر کی تقسیم اور ان دو ممالک کی پیدائش سے ہی مذکورہ ریاست پر حق ملکیت کی جنگوں میں ریاستی تقسیم ،بین الاقوامی تنازعہ کشمیر کے ظہورسے دو طرفہ مذاکرات و معاہدہ جات اور پھر اقتصادیات کی کشمکش تک یہی تنازعہ کشمیر ان دو ممالک کے درمیان تعلقات کا محرک رہا ہے ۔ بھارت و چین کے درمیان ایک بڑے تجارتی حجم کے باوجودان کے تعلقات میں کشیدگی کیوجہ سرحدی تنازعات ہیں جن میں ارونا چل پردیش اور سیاچن خاصکرساٹھ کی دہائی میں اسی ریاست جموں کشمیر کے لداخ کے حصے سیاچن پر چین کا قبضہ ہے جو بھارت چین جنگ (1962) کا پیش خیمہ بنا اور تب سے وہ ریاستی خظہ چین کے زیر انتظام ہے(لداخ ہی کا ایک پاکستانی زیر انتظام علاقہ پاک چین معاہدہ ١٩٦٣ میں چین کی عملداری میں دیا گیاتھا)۔ریاست جموںو کشمیر1947-48 کی پاک بھارت جنگ میں منقسم و متنازعہ ہوئی ایک حصہ پاکستانی زیر انتظام اور دوسرا بھارتی زیر انتظام کہلایا۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا خظہ گلگت بلتستان اور اسکی شاہراہ ریشم پاک چین مثالی دوستی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ چین آزمائش کے ہر دور میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے چاہے اسکی نوعیت خیر سگالی، لام بندی، دفاع و سلامتی اور اقتصادی تعاون سے منسلک رہی ہو۔

سال 2015میں پاکستانی گوادر پورٹ کی چینی سرکاری کمپنی ( اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ ) کو40سالہ لیز اور چین پاک اقتصادی راہداری معاہدہ (CPEC)اسی سلسلے کی ایک تاریخ ساز کڑی ہے۔ مذکورہ منصوبہ کے تحت پاکستان میں چین چھیالیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری توانائی ، بنیادی ترقی(انفراسٹرکچر) اور دیگر شعبوں میں کریگا جس میں کاشغر (چین) سے گوادرپورٹ(پاکستان) تک مواصلات (شاہرات، ریل) کے ذریعے چین عالمی منڈیوں میں آسان ، تیزرو اور سستی رسائی حاصل کر لے گا اور جس سے نہ صرف پاکستان و چین بلکہ پورا جنوبی ایشیاء ایک نئے معاشی دور میں داخل ہو جائے گا جس کے اثرات بلا شبہ وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے لیکر پوری دنیا کے معاشی حالات، اداروں اور کمپنیوں پر پڑیں گے۔ موجودہ دور کی بے ہنگم اور بے اصول اقتصادی دوڑ میں چین کی اس معاشی چھلانگ اور تزویراتی(سٹریٹیجک) اہمیت نے خطے میں اسکے مدمقابل بھارت کیساتھ اسکے مغربی اتحادیوں کو بھی عالمی معاشی دوڑ میں پریشان کر دیا ہے۔ پاک چین راہداری منصوبہ کی گزرگاہ بھی حسب سابق پاکستانی زیر انتظام متنازعہ ریاست جموں کشمیر کا علاقہ گلگت بلتستان ہے۔

جس پر ایک دفعہ پھر اس علاقے کی آئینی حیثیت پر بحث روز مرہ کا معمول بنا ہے جس کا موجب بھارت کا وہ روائتی موقف ہے کہ اکتوبر 1947کی حالت جنگ میںریاست کے بھارت کے ساتھ معاہدہ الحاق کی بنیاد پر پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر دونوں کی متنازعہ حیثیت پر بھارت کا قانونی جواز اور ساتھ میں کھوکھلی تنبیع کہ پاک چین ان متنازعہ علاقوں میں اپنی مداخلت اور بڑے منصوبہ جات پر نظرثانی کریں حالانکہ پچھلے لگ بھگ ستر سال سے یہ دونوں خطے پاکستان کے زیر اختیار رہے ہیں اور اسی گلگت بلتستان کے راستے (شاہراہ ریشم) سے پاک چین تجارتی بندھن مضبوط تر ہوتا رہا ہے۔

Gilgit Baltistan

Gilgit Baltistan

تاہم اس وقت گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا کہ چین نے اتنی بڑی سرمایہ کاری کو مذکورہ علاقوں کی آئینی حیثیت سے مشروط کر دیا ہے حالانکہ گزشتہ دھائیوں سے چین اسی علاقے میں اور اسی کے ذریعے پاکستان میںمسلسل سرمایہ کاری کر رہا ہے اور چین نینہ صرف گلگت بلتستان بلکہ1963میں پاک چین معاہدہ میں چین کی عملداری میں دئے گئے حصے کی بھی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے جموں و کشمیر(دوطرفہ) کے لوگ اسے ریاست ہی کا تاریخی اور جغرافیائی حصہ مانتے ہیں جبکہ خود گلگت بلتستان کے عوام میں قدرے ابہام پایا جاتا ہے جس کی وجوہات بلا شبہ اس علاقے کی محرومیت ،متفرق سیاست اور تاریخی مغالطے ہیں۔ اینسویں صدی کے وسط میںموجودہ گلگت بلتستان کے چھوٹے چھوٹے راجواڑوں کے مقامی حکمرانوں کی آپسی جنگ اور انہی کی دعوت پر1842میں بلتستان خالصہ دربار سے منسلک ریاست جموں کے ڈوگرہ راج کی حکمرانی میںآیا۔ گلگت مرکز میں یاسین پونیال کے راجہ گوہر امان کی چڑھائی ہوئی اور شاہ سکندر خان کے قتل کا بدلہ لینے اسکا بھائی کریم خان گورنر کشمیر امام دین سے فوجی مدد حاصل کر کے گوہر امان کو باہر کرنے میں کامیاب رہا ۔

مقامی حکمرانی یہاں کے مقامی راجاوں ہی کے پاس رہی جنہیں جموں و کشمیر کا تعاون حاصل تھا۔ معاہدہ امرتسر (1846) میں کشمیر اور ہزارہ جموں ڈوگرہ راج کو منتقل ہوئے تو کشمیر کی گلگت میں متعین انتظامیہ (نتھے شاہ یا نتھو شاہ )نے بھی مہاراجہ گلاب سنگھ کی اطاعت قبول کرلی ۔ 1847-49 کے دوران گلگت ایک بار پھر گوہر امان کے زیر ہوا اور اس جنگ میں نتھے شاہ اور کریم خان مارے گئے بعد ازاں جموں و کشمیر فوج کے تعاون سے کریم خان کا بیٹا محمد خان تخت گلگت کا مالک بنا۔ 1851 میں چیلاس اور استور کی جنگ کو ڈوگرہ مداخلت اور تسخیر نے وہاں امن دیا جبکہ گلگت پر1852 میںایک بار بھر گوہر امان غالب ہوا۔ ریاست چترال کے اثر و رسوخ کے علاوہ ہنزہ اور نگر کی آپسی مخاصمت کا گلگت پر حکمرانی کے کھیل میں بڑا کردار رہا ہے جس میں1852تک اقتدار کی ہما مختلف سروں پر بے چینی سے اڑتی بیٹھتی رہی ا لبتہ 1852-60 ا کے دوران ہمسایہ راجاوں کیساتھ عداوت کے باوجود گوہر امان نے گلگت مرکز میں اپنا سکہ منوایا اور دریائے سندھ ڈوگرہ راج اور گلگت کی سرحد بنا جسے 1860میں مہاراجہ جموں کشمیر رنبیر سنگھ کی فوج نے روندھتے ہوئے پہلے گلگت و یاسین اور پھر داریل تک(1866) ایک بار بھر ریاست کا اقتدار اعلیٰ بحال کر دیا جسے بعدازاں ہنزہ اور نگر نے بھی قبول کر لیا (بلتستان کا اکثر علاقہ اس مہم جوئی سے کنارہ کش رہا)۔ یہی وجہ ہے کہ1877 میں گلگت ایجنسی کے قیام ، 1935میںدفاعی ضروریات کا 60 سالہ لیز ایگریمنٹ اور یکم اگست 1947تک ایجنسی لیز معاہدہ کے خاتمے اور ان علاقوں کی ریاست(گورنر کھنسارہ سنگھ جموال) کو حوالگی تک کے تمام امور برطانوی راج نے بھی ریاستی سرکار جموں کشمیر کیساتھ ہی طے کیے تھے۔

Kashmir

Kashmir

تقسیم ہندکے اثرات اوربیرونی مداخلت کے ذریعے ریاست کے مسلمان آبادی پر مشتمل علاقوں (کشمیر، پونچھ، مغربی جموں،گلگت) میں مذہبی بنیاد پر سیاسی اور عسکری بغاوت ہوئی جس کا نتیجہ بھارت سے فوجی امداد کیلئے مہاراجہ کا عارضی و مشروط الحاق اور پھر بعدازاں ریاست کے سینے پہ کھینچی سیز فائر لائن یا کنٹرول لائن کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے موجود ہے ۔ تقسیم ہند یعنی 15اگست 1947 سے نومبر کی گلگت سکاوٹ کی بغاوت اور اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی تک پوری ریاست جموں کشمیر و لداخ(بشمول گلگت بلتستان) پر مہاراجہ ہری سنگھ کی مسلمہ و مقتدر حکمرانی تھی، اسی لئے جنوری 1948سے آج تک وہ پوری ریاست ( 84471مربع میل) اپنی ناقابل تقسیم وحدت کیساتھ متنازعہ ہے اور یہی اسکی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ آئینی اور قانونی حیثیت ہے باقی سب سیاسی اختراع، تخیلات اور مفروضے ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ورنہ پاک و ہند اپنی طاقت میں تو ایسی تبدیلیوں کیلئے 70 سال میں اتنے بے بس تو نہیں تھے۔

چین کے حکومتی سطح پر منکر ہو جانے کے باوجودپاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ سے بلا وجہ منسوب کی گئی گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلقہ موجودہ بحث کو لیکر مختلف آراء سیاسی بازار کی رونق بنی ہیں جس میں کو ئی اسے اسی حالت پر قائم رکھنے یا پاکستان کا آئینی صوبہ بنانے، کوئی سابقہ ایجنسی پر مشتمل علاقوں کو ریاست سے الگ جانتے ہوئے گلگت بلتستان کے متنازعہ اور آئینی حصوں پر تقسیم کرنے اور کوئی آزاد کشمیر طرز کا سیاسی نظام تو کوئی گلگت بلتستان کی علیحدہ ریاست کا سامان لیکر اس بظاہر تفریحی منڈی میں اترا ہے جس میں کچھ بھی حاصل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر اور پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان و آزاد کشمیردونوں ایک ہی ریاست کے متنازعہ علاقے اور رائے شماری کے ذریعے حتمی تصفیہ تک کسی بھی ملک کا آئینی حصہ نہیں ہیں۔پاکستانی آئین(آرٹیکل1 اور257) کیمطابق بھی یہ خطے پاکستان کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ان علاقوں کیساتھ آئینی تعلق پوری ریاست کے الحاق پاکستان کے بعد ہی وضع کیا جائیگا۔ لہذا ان دونوں خطوں کو کوئی بھی نام یا نظام دے بھی دیا جائے تو اس سے انکی خصوصی متنازعہ آئینی حیثیت کسی صورت نہیں بدلے گی جیسے بھارتی زیر انتظام حصوں کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اور بھارت کے دعووں کے باجود بھی وہ بھارت کا آئینی حصہ نہیں بلکہ محض مشروط ملحقہ اکائی ہی ہے۔یوں اگرپاکستان ان متنازعہ علاقوں کو اپنا آئینی حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تولکیر کی دوسری طرف متنازعہ جموں کشمیر میں بھارتی موجودگی، آئینی موقف اور جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد بنانے جیسے عزائم کو تقویت حاصل ہو جائیگی اور یہی بھارت کی شدید خواہش بھی ہے۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا مسئلہ آئینی نہیں بلکہ بنیادی و انسانی ،سیاسی اور معاشی حقوق کے فقدان اور عدم فراہمی سے منسلک ہے جس کا ازالہ اور انتظام اقوام متحدہ کی قراردادوں، پاکستانی آئین اور آزاد کشمیر و پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کی ہدائت کے مطابق بیحد ضروری ہے کہ جس سے وہاں کی عوام میں احساس محرومیت کو دور کیا جا سکے ۔ اقوام متحدہ کی13 اگست 1948کی قرارداد کے حصہ دوم ( A3 ) Part 2 میں مجوزہ لوکل اتھارٹی کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ،پاکستان کی مسئلہ کشمیر کے فریق کی حیثیت سے خارجہ پالیسی اور اسکے آئین کی روشنی میں انتظامی تبدیلی کیلئے بہتر تو یہ ہے کہ ان دونوں متنازعہ خطوں کو ایک مشترکہ سیاسی و انتظامی اکائی میں ڈھال کر ایک مشترکہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ (حکومت) پر مشتمل ایک فعال اور مختار ( Autonomous) خطہ تسلیم کر لیا جائے ، دوسری صورت میں گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کی شکل دے دی جائے، تیسری صورت یہ کہ دونوں حصوں میں دو صوبائی طرز کی اسمبلیوں کیساتھ ایک مشترکہ مجلس اعلیٰ (قومی اسمبلی، سینٹ طرزیا گرینڈکونسل) کے ذریعے مربوط اور با اختیار حکومت کی تشکیل کی جائے اورشدید عوامی مطالبات جیسے ناگزیر حالات میں ان متنازعہ علاقوں کی قانونی حیثیت اور اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ ریاستی وحدت کو چھیڑے بغیر آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی مشترکہ اسمبلی، ذیلی علاقائی اسمبلیوں یا مجلس اعلیٰ کے ممبران میں سے پاکستان کی مقننہ( پارلیمنٹ) میں نمائندگی کیلئے خصوصی حیثیت میں مبصرنمائندگی کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے جس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی، کشمیر موقف اور آئین میں بھی کسی بڑی تبدیلی کے امکانات بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم ایسے با اختیار سیاسی و انتظامی اداروں کی تشکیل سے ان دونوں خطوں کے احساس محرومیت میں کمی ضرور آئے گی۔

بین الاقوامی سیاست میں تنازعات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جس کی بظاہر گرمی میں اندرون خانہ سرد نوعیت کی سودابازی ( Bargaining) طے کی جاتی ہے۔ مسئلہ کشمیر میں بھی پاکستانی موقف بھارتی زیر انتظام کشمیر پر بھارتی تسلط اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر رائے شماری کا مطالبہ ہے جبکہ بھارت گلگت بلتستان و آزاد کشمیرمیں سیاسی محرومیت اور دہشت گردی کی آڑ میں موجودہ جنگ بندی یاکنٹرول لائن کو ہی مستقل سرحد بنانے پر سودہ بازی کرنے پر ہمیشہ تیار رہاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ بندی لائن کی دونوں اطراف کی اسمبلیوں کو اپنے طور پر یہ اختیار ہی حاصل نہیں کہ وہ ان علاقوں کے مستقبل کی آئینی حیثیت کے متعلق کوئی فیصلہ کر سکیں( اقوام متحدہ قرارداد (91,122۔ اسی طرح اپنے اپنے طور پر دونوں ممالک کے زیر انتظام متنازعہ علاقوں کی مستقل آئینی حیثیت میں کوئی بھی تبدیلی دونوں ممالک کی باہمی رضامندی اور اس پر اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر ناممکن ہے۔ اب جبکہ ان متنازعہ علاقوں کی آئینی اور قانونی حیثیت واضح ہو گئی ہے تو مفروضوں اور بے محل و بے نتیجہ بحث میں عوام کو الجھنے یا الجھانے کی بجائے ان علاقوں کے عوام کے بنیادی انسانی، سیاسی اور معاشی حقوق سے جڑے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے عملی اقدامات بھی کئے جائیں جن سے کوئی ازالہ اور تشفی بھی ہو ورنہ یہ خلیج بڑھنے سے کب رکی ہے۔

Raja Shafqat

Raja Shafqat

تحریر: شفقت راجہ