ہمارے ایدھی بابا چلے گئے

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

تحریر : نعیم الرحمان شائق
ہمارے ایدھی بابا چلے گئے ۔ جانا تو سب کو ہوتا ہے۔سب کی منزل وہی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ جا کر بھی نہیں جاتے ۔پتا ہے ، وہ کون لوگ ہوتے ہیں ؟ ہمارے بابا جیسے لوگ ۔یعنی وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں ۔ جن کی خواہشیں ، جن کی امنگیں، جن کی خوشیاں ۔۔غرض سب کچھ دوسروں کے لیے وقف ہوتا ہے ۔بابا ایدھی کا پورا نام عبدالستار ایدھی تھا ۔لیکن وہ ہمارے بابا تھے ۔ پوری قوم کے بابا ۔غریب بستیوں کے رہنےوالوں کے بابا۔سچ پوچھیے تو پوری انسانیت کے بابا ۔اس لیے میں ان کو بابا ایدھی کہوں گا ۔ تاریخ ِ پاکستان میں ہم نے ایسا بابا نہیں دیکھا ۔ ہمارے قومی شاعر نے کہا تھا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

بابا ایدھی جیسے لوگ رو ز روز نہیں آیا کرتے ۔ صدیاں گذر جاتی ہیں ۔تب کہیں جا کر ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں ۔بابا نے ساری عمر سادگی میں گزاردی ۔ ان کے لباس اور کھانے پینے سے سادگی جھلکتی تھی ۔ ان کے پاس سستے ترین کپڑوں کے صرف دو جوڑے تھے ۔ جن میں سے ایک میلا ہوجاتا تھا تو وہ دوسرا پہن لیتے تھے ۔ وہ دو کمروں کے سادہ فلیٹ میں رہتے تھے ۔جہاں سادگی ہی سادگی نظر آتی تھی ۔وہ کتنے عظیم تھے کہ جاتے ہوئے اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے ۔وہ محب ِ وطن پاکستانی تھے ۔وطن کی محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ بابا 2013 ء سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ ایک بار ان کو سابق صدر آصف علی زرداری نے ملک سے باہر علاج کرانے کی پیش کش کی بابا نے انکار کردیا اور کہا کہ میرا علاج پاکستان میں ہوگا۔

ان کا علاج آخر تک پاکستان میں ہوتا رہا ۔ باباکو غریبوں سے سچی محبت تھی ۔ وہ ساری زندگی غریبوں کا دکھ درد بانٹتے رہے ۔ وہ ساری زندگی انھی کے رہے ۔آج بھی غریبوں کی بستی میں ابدی نیند سو رہے ہیں ۔ یعنی موت بھی ان کو غریبوں سے جدا نہ کر سکی ۔ انھوں نے 25 سال پہلے وہاں اپنی قبر تیار کر وادی تھی ۔ کیوں کہ موت کا کچھ پتا نہیں ہوتا ۔ یہ کبھی بھی آجاتی ہے۔ بابا کی موت نے سب کو سوگ وار کر دیا ۔ بچے ، بوڑھے ، جوان ، سبھی ان کی موت پر افسردہ ہیں ۔لوگ کہتے ہیں ، انھیں نوبل ایوارڈ کیوں نہیں ملا ۔ ہم کہتے ہیں ، عوام سے ن کا لگاؤ اور محبت ہی ان کا نوبل ایورڈ تھا ۔نوبل ایوارڈنہیں ملا تو کیا ہوا ۔ان کو 20 سے زائد قومی و بین الاقوامی اعزازت مل چکے تھے ۔ نوبل ایوراڈ کوئی سچے پکے ہونے کی سند نہیں ۔ سند یہ ہے کہ عام عوام کسی کو کتنا چاہتے ہیں ۔ ایدھی صاحب کو عام عوام بہت چاہتے تھے۔ پس معلوم ہوا کہ وہ عظیم شخص تھے ۔ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ یہ عورت اپنے ایدھی بابا کے غم میں مسلسل رو رہی تھی ۔اس کی آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

ایک رضا کار کا کہنا تھا کہ سترہ سال پہلے یہ خاتون ایدھی رضا کاروں کو ملی تھی ۔گونگی ہونے کے باعث اس خاتون کا نام معلوم نہیں ہو سکا ہے ۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایدھی بابا جب کوئٹہ آتے تھے تو یہی خاتون ان کے لیے کھانا بنایا کرتی تھی ۔یہ خاتون آنکھوں سے رواں دواں آنسووں کے ساتھ ایدھی صاحب کی تصویریں اپنے دوپٹے سے صاف کر رہی تھی ۔ یہ عورت کسی کو بھی بابا ایدھی کی تصویریں صاف نہیں کرنےدی رہی تھی بابا ایدھی کے جانے کے بعد وہ بچے دوسری بار یتیم ہو گئے ، جو پہلی بار یتیم ہونے کے بعد اپنے بابا ایدھی کے یتیم خانوں میں رہتے تھے ۔ وہ بچے بھی افسردہ ہیں ۔ پتا نہیں ، اب ان کے معصوم چہروں پر پھیلی زردیوں کوکون ختم کرے گا۔

بابا ایدھی کی بات ہوئی تو میرے ایک دوست نے اظہار ِ خیال کیا ۔ انھوں نے اپنا نکتہ ِ نظر پیش کیا ۔ میں نے وعدہ کیا کہ اپنی تحریر میں آپ کا نکتہ ِ نظر دوں گا ۔ ان کا خیال تھاکہ میڈیا اس وقت بابا ایدھی کے بارے میں اچھی رپورٹنگ کررہا ہے کہ وہ ایک اچھے انسان تھے ۔ لیکن میڈیا کو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ جو کام بابا ایدھی نے کیے ہیں ، وہ کام حکومت کے کرنے کے تھے ۔ لیکن حکومت نے غفلت برتی ۔ اس لیے اب بابا ایدھی کی وفات کے بعد حکومت کو ان کے کام کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے ۔ کیوں کہ یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے ۔

مولانا ابوالکلام آزاد فوت ہوئے تو شور ش کاشمیری تڑپ اٹھے تھے ۔ انھوں نے اس وقت ایک درد ناک نظم کہی تھی ۔کل جب میں نے بابا ایدھی کی وفات کی خبر سنی تو مجھے فورا ََ وہ نظم یا د آگئی ۔اس نظم کے دو بندپیش کرکے آپ سے اجازت چاہتا ہوں ۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں ہے
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

اگرچہ حالات کا سفینہ اسیر گرداب ہو چکا ہے
اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے
اگرچہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سوچکا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم ، خواص پہنچے، عوام پہنچے
تری لحد پہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

تحریر : نعیم الرحمان شائق
Shaaiq89@gmail.com