ایدھی ابھی زندہ ہے۔۔۔!

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

تحریر : فرخ شہباز وڑائچ
یہ کہانی 1928ء سے شروع ہوتی ہے جب بھارتی ریاست گجرات کے مسلمان تاجر کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی،اس بچے میں شروع سے ہی دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ موجود تھا۔جب اس نے سکول جانا شروع کیا جو پیسے اسے جیب خرچ میں دیے جاتے وہ ان پیسوں سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر دیتا،اس لڑکے نے شروع سے ہی دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا۔ 1947ء تقسیم ہند کے بعد وہ لڑکا اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے کراچی میں آبسا، 1951ء میں اس نوجوان نے پانچ ہزار کی قلیل رقم سے کچھ بڑا کرنے کا سوچا۔جی ہاں ایک چھوٹے سے کمرے اور 5 ہزار کی معمولی رقم سے فلاح و بہبود کا مرکز قائم کیا گیا،اس وقت تو اس پر عزم نوجوان کو بھی علم نہیں تھا کہ جو نیکی کا بیج وہ بو رہا ہے ایک دن وہ شجر سایہ دار کی صورت اختیار کر جائے گا۔

ایک کمر ے اور چند ہزار روپے سے شروع ہونے والی یہ نیکی کی داستان پھیلتے پھیلتے پورے ملک میں پھیل گئی آج اس طرح کے فلاحی سینٹرز کی تعداد 300 ہے جبکہ اس ادارے کے تحت ملک بھر میں 1500 ایمبولینسز کام کر رہی ہیں جو کسی بھی ایمر جنسی کی صورتحال میں سب سے پہلے پہنچتی ہیں۔مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کے لیے اپنی زندگی قربان کردینے والے کا نام عبدالستار ایدھی تھا، وہی عبدالستار ایدھی جن سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا آپ دوسرے ممالک سے امداد کیوں نہیں مانگتے انہوں نے جواب دیا اس کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی جب بھی پیسوں کی کمی ہوتی ہے میں سڑک پر رومال بچھا کر بیٹھ جاتا ہوں چند گھنٹوں میں پاکستانی کروڑوں روپے دے دیتے ہیں۔

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

وہی عبدالستار ایدھی جس نے شہر میں نومولود لاشیں دیکھیں تو ایسے جھولے بنائے جن پر لکھا گیا”معصوم بچوں کو قتل نہ کریں انہیں ہمارے جھولے میں ڈال دیں” جن بچوں کو کوئی وارث نہیں تھا ان کا وارث عبدالستار ایدھی تھا۔ہماری جہالت وہ لاوارث بچے والے جھولے بھرتی رہی اور ایدھی ان بچو ں کو شناخت دیتے رہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ایدھی فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بذات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے تھے۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔

16 اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ، یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

آج لاوارثوں کے وارث عبدالستار ایدھی کے نام کو پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں بھی پہچانا جاتا ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے تھے، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا تھا، جسکو وہ پچھلے بیس سال سے استعمال کر رہے تھے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے بجٹ میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسا بھی نہیں خرچ کرتے تھے۔عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی بتاتے ہیں ایک مرتبہ، جب افغانستان میں مرکز کا افتتا ح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی صاحب وہاں آئے تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوئے، کیونکہ انکے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔

اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوئے۔سادگی کا عالم یہ تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس کے سربراہ تھے سینٹرز میں رہائش پذیر بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے ان کے ساتھ رہتے تھے،شدید علالت کا عالم تھا رحمان ملک بعد ازاں آصفہ بھٹو نے بیرون ملک علاج کروانے کی آفر کی مگرجواب دیا میں اپنے ملک کے ہسپتالوں سے ہی علاج کروائوں گا،
وصیت یہ تھی جن کپڑوں میں آخری سانس لوں انہی کپڑوں میں دفنایا جائے۔ہمارا ہیرو جاتے جاتے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کرگیا یعنی جیتے جی بھی انسانیت کی خدمت کی اور دنیا سے جاتے ہوئے بھی انسانیت پر احسان کر گیا۔اب ایدھی ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر،ہمارے درمیان اب بھی وہ اپنے مشن کی شکل میں موجود ہیں اگر آپ واقعی ان سے پیار کرتے ہیں تو آئیے ان کے خواب پورا کرنے میں لگ جائیںوہ پاکستان کو فلاحی ریاست دیکھناچاہتے تھے ،کیا آپ تیار ہیں ایدھی مشن کی تکمیل کے لیے۔۔؟

Farrukh Shahbaz Warraich

Farrukh Shahbaz Warraich

تحریر : فرخ شہباز وڑائچ
farrukhshahbaz03@gmail.com