تعلیم کا گراف دن بدن نیچے جا رہا ہے

Education

Education

تحریر : عبدالجبار خان دریشک
تعلیم جہالت کے اندھیروں کو مٹانے کا ذریعہ ہے، جب کسی بھی ملک و ریاست کا ہر باشندہ علم کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے تو وہ معاشرہ ترقی یافتہ اور باشعور بھی ہوتا ہے اس ملک کے فرد یہ شعور دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ وہ دوسروں کو تعلیم دے کر بھی باشعور بناتے ہیں، اور تعلیم کی وجہ سے اپنے اعلی رویوں کی بنیاد پر بھی دوسروں کو علم دے کر باشعور بناتے ہیں۔ جو قومیں تعلیم کی اہمیت کو باخوبی سمجھتی ہیں تو وہ تعلیم کے بل بوتے پر جلد ترقی کر کے دنیا کے سامنے ایک طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہیں ہمارے سامنے دنیا کے ایسے کئی ممالک کی مثال ملتی ہے جنوں نے شعبہ تعلیم کو ہی ترقی کا راستہ سمجھا اور اس شعبہ میں بہتر سرمایا کاری کی تو انہیں اس کے نتائج بہت اچھے برآمد ہوئے۔

امریکہ کے ہاتھوں تباہ ہونے والا جاپان ہو یا نشے میں غرق کسی دور کے چینی ہوں آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی لسٹ میں شامل ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں 70 سال سے شعبہ تعلیم کی طرف خاص توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ہمیں آزادی ملے ایک صدی ہونے والی ہے لیکن ہماری حالت نہ بدل سکی، ہم اپنے بجٹ کا بہت کم حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں جبکہ اس کے کئی گناہ زیادہ بجٹ دوسرے فضول کاموں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے ہاں تعلیم کے معیار میں دن بدن گروٹ پیدا ہوتی جارہی ہے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ملک کو کوئی ایسا حکمران نہ مل سکا جو صرف تعلیم کو ترجیح دیتا ایک تو ہمیں تقسیم کے وقت بہت کم آثاثہ جات دیے گئے جس کی وجہ سے ہمیں نظام حکومت چلانے اور ترقیاتی کاموں کے لیے دوسرے ممالک سے قرض کے ساتھ امداد بھی لینی پڑی ، جس کی وجہ سے ہمیں ان کی شرائط کے ساتھ کچھ ایسی باتیں بھی قبول کرنی پڑیں جس جو ہماری داخلی معاملات سمت کچھ شعبوں پر بھی اثر انداز ہوتی تھیں۔ ہمیں تعلیم کی مد میں ملنے والی امداد کی وجہ اس شعبہ کی پالیسی بھی ان ہی کے کہنے پر چلانی پڑی ، جسکی وجہ سے ملک میں مختلف نظام تعلیم نے جنم لیا ملک کا ایک طبقہ دینی تعلیم کے علاوہ دوسری تعلیم کو اچھا نہ سمجھتا تھا ایک طبقہ قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیع دیتا تھا تو ایک اور طبقہ جو خوشحال تھا اور پہلے سے کافی حد تک تعلیم یافتہ تھا وہ انگریزی تعلیم کو ترقی کا ذریعہ سجھتے ہوئے انگریری تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا، جس سے ملک میں یکساں تعلیمی نظام کی بجائے مختلف نظام رائج ہوئے۔ آج ملک میں طبقاتی تقسیم بھی یکساں تعلیمی نظام نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے، ہر طبقے کی سوچ دوسرے سے اتنی مختلف ہے کہ اس میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے جو کہ معاشرے میں عدم برداشت کے ساتھ تشدد میں آضافہ کر رہا ہے۔

ملک میں کرپشن کی وجہ سے خزانے خالی پڑے ہیں اور سرکاری سطح پر تعلیم ہر بچے کو دینا بہت مشکل ہے جس کے لیے شعبہ تعلیم میں پرائیویٹ سکولز کا نظام بھی لایا گیا اب بڑی تعداد میں بچے سرکاری کی بجائے پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں سرکاری سطح پر قائم سکولز میں سہولیات کے فقدان، استاتذہ کی عدم توجہی اور دیگر عوامل کی وجہ سے زیادہ تر والدین پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ترجیع دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً اکثریت پرائیویٹ سکولز چلانے والے کاروباری سوچ کے حامل افراد ہیں جو ان اداروں کو ایک دوکان کی طرح چلاتے ہیں اسی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر سے والدین کا اعتبار اٹھتا جارہا ہے۔ بھاری بھرم فیسوں اور تعلیمی معیار کی کمی کی وجہ بچے کی کمی ٹیوشن سے پوری کروائی جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہنوں نے اس شعبہ کو سرکاری سطح پر رکھا ہوا ہے اور ان ممالک میں یکساں تعلیمی نظام کے ساتھ حکومت ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرتی ہے۔ کیوبا جیسا ملک جس پر سارا عرصہ امریکہ کی طرف پابندیاں لگائی جاتی رہیں وہاں بھی بھی ہر بچے کو سکول سے لے کر یونیورسٹی تک مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ کیوبا میں یکساں تعلیم نظام قائم ہے پورے ملک میں ایک جسی کتابیں اور ایک جیسی یونیفارم رائج ہے۔ کچھ ماہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی یکساں تعلیم نظام کے بارے میں کہا تھا ایک کتاب ایک بستہ اور ایک یونیفارم ہونا چاہیے۔

پاکستان میں تعلیمی بجٹ ویسے تو بہت کم رکھا جاتا ہے لیکن 2010 سے اس میں ہر سال 15 فیصد آضافہ کیا جارہا ہے۔ لیکن اس باوجود خواندگی کی شرح میں آضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ حال ہی میں ایک اقتصادی سروے بین الاقومی خبر راساں ادارے کی ویب سائٹ جاری کیا گیا، جس کے مطابق ایسے افراد جو پڑھ لکھ نہ سکتے ہوں ان کی تعداد میں 2 فیصد آضافہ گزشتہ سال کی نسبت ہوا ہے۔ جبکہ 2016 میں اس میں دوفیصد کمی ہوئی تھی اور اسی طرح 2014 اور 2015 میں کو تبدیلی نہیں ہوئی اور یہ گراف ویسے کا ویسا رہا، ادھر حکومت کی مدت مکمل ہونے والی ہے جہاں وہ اپنے ترقی یافتہ کاموں کی ایک لمبی چوڑی لیسٹ رکھتے ہیں وہیں تعلیم کے حوالے سے یہ رپورٹ تشویش ناک ہے، ایک طرف یونیورسٹی کی تعداد میں آضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف بنیادی تعلیمی میں پوزیشن نیچے کی طرف چلی گئی ہے۔

حالیہ مردم شماری میں ملک کی آبادی بیس لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ کے چودہ برس سے یا اس سے کم عمر افراد کی تعداد کل آبادی کا 35 فیصد بنتا ہے۔ اس 35 فیصد میں سے 2 کروڑ 25 لاکھ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں، جس میں ایک کروڑ بچے پنجاب کے سکول سے باہر ہیں دوسری طرف بلوچستان میں بھی اس وقت 27 لاکھ بچے سکولز سے باہر ہیں جبکہ وہاں صرف 8 لاکھ بچے سکولز میں ہیں بلوچستان میں 74 فیصد بچے سرکاری سکولز میں 19 فیصد پرائیویٹ اور 5 فیصد مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں۔ ملک میں شرح خواندگی کا تناسب 58 فیصد ہے یہ شرح شہری آبادی میں 74 فیصد ہے جبکہ دیہات میں 49 فیصد ہے، اب اگر دیہی اور شہر آبادی کو دیکھا جائے تو 65 فیصد دیہات میں تناسب خواندگی 49 فیصد شہر علاقوں میں آبادی 35 فیصد اور خواندگی کا تناسب 74 فیصد ہے اس سے صاف ظاہر ہے حکومتی سطح پر زیادہ توجہ شہری آبادی پر مرکوز رکھی جاتی ہے جہاں دیگر سہولیات کے ساتھ اچھے اور اعلی تعلمی ادارے موجود ہوتے ہیں دوسری طرف بینادی سہولیات کے ساتھ تعلیمی اداروں کی بھی کمی ہوتی ہے۔

پاکستان اس وقت ڈھائی لاکھ سکول ہیں جن میں سے بچاس ہزار ہائیر سیکنڈری سکول ہیں۔ جبکہ ملک میں یونیورسٹیوں کی 188 ہے اور پندرہ سال قبل یہ تعداد صرف 59 تھی جبکہ حکومت سطح پر کوشش کی جاری ہے 2025 ان تعداد 300 تک ہونے کے امکانات ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اس وقت انرولمنٹ 9 فیصد ہے جوکبھی 2.6 فیصد تھی۔ اگر یونیورسٹوں کی تعداد بڑھانے میں ترکی اس وقت ہم سے زیادہ آگے ہے طیعب اردون سے پہلے ترکی میں یونیورسٹوں کی تعداد 98 تھی جبکہ اب یہ تعداد 190 تک پہنچ چکی ہے اور ان کا تعلیمی بجٹ 7.5 ارب ویرا سے بڑھا کر 35 ارب ویرا کر دیا گیا، جبکہ ترکی میں سکول سے لے کر یونیورسٹی تک مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے 2023 تک ترکی میں 3 لاکھ محقیق تیار کیے جائیں گے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں خواندگی میں کمی ہورہی ہے وہیں یونیورسٹیوں میں بھی معیاری تعلیمی کی کمی واقع ہورہی ہے یونیورسٹیوں آئے روز جھگڑے فساد اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے یونیورسٹی کے طلباءکی کارکردگی بھی کم ہو رہی ہے۔

ایک طرف شرح خواندگی میں کمی ہورہی تو ساتھ ہی پرائمری سے لے اعلی تعلیم تک کے معیار میں بھی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ہائی سکولوں سبجیکٹ سپشلسٹ کی کمی ہے صرف پنجاب میں تقریباً 400 سبجیکٹ سپشلسٹ کو ہیڈ ماسٹر لگایا گیا ہے جن کی تعیناتی خلاف قانون ہے ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ کے لیے پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ بھرتی کی جائے یا تو سبجیکٹ سپشلسٹ کا دس سالہ تجربہ رکھنے والے ایس ایس ٹی ٹیچر کو ہیڈ ماسٹر لگایا جاتا ہے لیکن یہاں 5 سے8 سالہ تجربہ رکھنے والے ہیڈ ماسٹر لگائے گئے ہیں جن کو سارا دن اپنے دفتری اموار سرانجام دیتے ہیں ان کا دفتر کا کام اتنا ہوتا وہ اپنا سبجیکٹ بھی نہیں پڑھا سکتے جس سے میٹرک کا رزلٹ متاثر ہو رہا ہے۔

معیار تعلیم کی گروٹ کا انذاہ اس سے لگا جا سکتا ہے کہ ملک میں ہونے والے اعلی سول امتحان ، سی ایس ایس میں پاس ہونے والوں کی شرح میں مسلسل کمی ہورہی ہے امیدوار امتحان بڑی تعداد میں فیل ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال بہت ساری آسامیاں خالی رہے جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ساڑھے چار لاکھ گریجویٹس ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم سے ا?راستہ ہو رہے ہیں اس تناظر میں2016 میں سی ایس ایس کے امتحانات کے تحت199 اسامیوں کے لئے 9643 امیدواروں نے مقابلے کے امتحان میں شرکت کی جس میں سے صرف202 امیدواروں کا کامیاب ہوئے جبکہ 1990 میں سی ایس ایس کے امتحان میں 126 اسامیوں کے لئے 10ہزار امیدواروں میں سے ایک ہزار کامیاب ہوئے تھے۔

اگر ملک کو ترقی کی شاہرا پر لے آنا ہے تو شعبہ تعلیمی پر توجہ دینی ہوگی ، جس کے بجٹ میں خاطر خواہ آضافے کرنا ہوگا ، ساتھ ہی ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کیا جانا چاہیے تاکہ قومی سطح کی تقسیم سوچ کو مزید تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے۔ اور قوم کو ایک قوم بنایا جائے۔

Abdul Jabbar Khan

Abdul Jabbar Khan

تحریر : عبدالجبار خان دریشک