یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا ہمارے تعلیم کے نظام کا بڑا نقص ہے: اوریا مقبول جان

Educational Seminar

Educational Seminar

لاہور: اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل صہیب الدین کاکا خیل نے کہا ہے دیا ہے۔ انگریزی زبان کو مکمل ذریعہ تعلیم بنانے سے رٹہ کلچر کو فروغ مل رہا ہے جبکہ اعلی تعلیم میں بیرونی دنیا کے پرانے اسباق پڑھائے جا رہے ہیں۔ تعلیم ہی ملک کے بہتر مستقبل کی علامت ہے لیکن بیرونی مداخلت اب سیاسی و عسکری امور سے آگے نکل کر تعلیمی اداروں میں روشن خیالی کے نام نہاد تصور اور وظائف دینے کی صورت میں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں تعلیمی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، سیمینار سے معروف تجزیہ نگار اوریا مقبول جان ، ڈاکٹر نبی بخش جمانی ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز اور آصف لقمان قاضی نے بھی خطاب کیا۔

صہیب الدین کاکا خیل کا کہنا تھا کہ زندگی کے ہرشعبے میں ترقی وکامرنی کی نوید اور کلید ہے ،مگر ہماے ہاں سرکاری سکولوں کی ہزاروں عمارتیں بھوت بنگلوں اور کھنڈرات کامنظر پیش کررہی ہیں۔کئی عمارتیںقبضہ مافیا کے قبضے میں ہیں جہاں مویشی باندھے جاتے ہیں سکول کی مرمت اور فرنیچر کیلئے جوبجٹ فراہم کیاجاتا ہے وہ خورد برد کاشکار ہوجاتا ہے کئی تعلیمی اداروں میں بچوں سے جبری مشقت بھی لی جاتی ہے ان حالات میں ضرورت اس امرکی ہے کہ خستہ حال سکولوں کی ازسرنوتزئین و آرائش کی جائے۔ جو اساتذہ کی تنخواہوں اور پنشن پر خرچ ہوتے ہیں۔ اوریا مقبول جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی بجٹ تعلیم کے فروغ ، تعلیمی اداروں کے انفراسٹر اکچر کی بہتری ، جدید نصاب تعلیم اور طلباء کے وظائف پر خرچ کیا جائے۔ اسکے ساتھ کم از کم قومی بجٹ کا ایک فیصد حصہ تعلیمی ریسرچ کیلئے مختص ہونا چاہیے۔ جو قومیں ترقی کرتی ہیں ان کیلئے تعلیم کا حصول پہلی ترجیح ہے۔

یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا ہمارے تعلیم کے نظام کا بڑا نقص ہے۔ معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے امیر اور غریب کے لیے یکساں نظام کا ہونا اشد ضروری ہے۔ غریب طلباء سے احساس محرومی بھی کم ہوگا اور معیار تعلیم بھی بلند ہوگا۔پرائمری تعلیم کی طرف عدم توجہی ہمارے تعلیمی نظام کا بڑا نقص ہے۔ اگر بنیادی تعلیم مضبوط نہ ہوگی تو مزید تعلیم کی منزلیں تعمیر کرنا ناممکن اور بیوقوفی والی بات ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچوں کا تعلیمی معیار دن بدن گرتا ہوا نظر آتا ہے۔ڈاکٹر نبی بخش جمانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام تعلیمی اداروں میں ضرورت کے مطابق فرنیچر اور دیگر سائنس وغیرہ کے آلات، چارٹس، لیٹرین باتھ روم اور صاف پانی میسر نہ کرنا بھی ہمارے تعلیمی نظام کا اہم نقص ہے۔ اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ بڑی رشوت کے عیوض ناقص مٹیریل کی سپلائی ہوتی ہے۔

ضرورت ہو یا نہ ہو بس حکومت کے طرف سے دیے گئے فنڈز کو متعلقہ افسران اور ٹھیکیدار اس طرح چاٹ لیتے ہیں جس طرح کوئی نیک شخص سالن کے برتن کو چاٹ کر صاف کرلیتا ہے۔ کئی مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ اسکولوں میں فرنیچر رکھنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی، باہر دھوپ اور برسات میں پڑا ہوا ضایع ہوجاتا ہے۔ اس کا سدباب ہونا چاہیے۔اس وقت ،بد قسمتی سے، تعلیم کو پیسہ کمانے کا کارخانہ (انڈسٹری) بنا دیا گیا ہے، اور تعلیم کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ اب تعلیم کا حصول غریب طبقے کیلئے ناممکن اور متوسط طبقے کیلئے بے حد مشکل بنا دیا گیا ہے۔اب غیر سرکاری اداروں میں فیسیں روزافزوںزیادہ اور تعلیم کم اور سطحی رہ گئی ہے۔