عید پر بھول نہ جانا

Dr. Aafia Siddiqui

Dr. Aafia Siddiqui

تحریر : حفیظ خٹک

عید الفطر، قدرتی خوشی اک دن، ماہ رمضان کی شدید گرمی میں رکھے گئے روزے، پانی و بجلی کی عدم دستیابی کے باوجود صرف اللہ کی رضا کیلئے ذکر و فکر و عبادات کے صلے میں عید دن اک ناقابل بیاں خوشی کا احساس لئے آتا ہے اور پھر مسکراہٹیںبکھیرتاخوشیاںتقسم کرتا یہدن گذر جاتاہے۔ آخری عشرے میں جہاں ایک جانب عبادات عروج پر ہوتی ہیں، شب قدر کی تلاش میں راتوں کا قیام ہوتاہے تو دوسری جانب بازاروںمیں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ دوردراز سے تلاش معاش میں آئے ہوئے جس بے چینی سے اپنوں کے پاس پہنچنے کا احساس لئے بسوں، ٹرینوں اور ہوائی جہازوں پر محو سفر ہوتے ہیں اس کا احساس و اندازہ وہی کرسکتے ہیں جو ایسے وقتوں سے گزرے ہوں۔ عید کے پہلے دن سے لے کر تیسرے دن تک اپنوں میں گذرنے والے یہ اپنی نوعیت کے منفرد دن ہواکرتے ہیں۔ خوشی کے یہ لمحات ناقابل بیان ہیں اسکے ساتھ ناقابل بیاں کچھ اور باتیں و قصے بھی ہیں۔ ہاں یہ اک تلخ حقیقت ہے کہ ہم خوشی کے لمحوں میں بہت کچھ بھول جاتے ہیں یا پھر نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔۔۔

عید مناکر ان کو بھول نہ جانا کہنے کو اک جملہ ہے لیکن یہ اک ذومعنی جملہ ہے جو کچھ دیر کیلئے صحیح ضمیر کو جنھجوڑتا ضرور ہے۔عید کے دن اس بار ان کو بھول نہ جانا دعاﺅں میں، اپنی خوشیوںمیں،جو گذشتہ برس تو ساتھ تھے، جو چند ماہ قبل تک ساتھ رہے جو چند دن پہلے تک ساتھ رہے اور پھر ایسے بھی جملے کہ جو اذیت کے لمحات سہنے والے کی زبان سے آتے ہیں کہ عید سے اک دن پہلے وہ چلا گیا۔۔۔

یہ جملہ نہیںیہ بات تو گذشتہ ماہ امریکہ میں دوران تعلیم شہید کی جانے والی قوم کی بیٹی سبیکا شیخ کی والدہ نے بھی بتائی کہ میری بیٹی جب بھی فون کرتی تو یہ کہا کرتی تھی کہ بس اتنے دن رہہ گئے ،اتنے دنوں کے بعد میں آجاﺅنگی۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے اس نے آخری بار بھی ایسا ہی کہا تھا کہ ماں بس ایک ماہ کی بات رہ گئی ہے اگلے ماہ میں 9جون کو آجاﺅنگی۔ آہ، وہ باتیں سبیکا شیخ اس کی ماں ، باپ اور بہن بھائیوں سمیت پوری قوم کے جذبات سب کے سامنے عیاں ہیں۔ اس قوم کی بیٹی کو بھی عید کے اس موقع پر یاد رکھیں۔ اس کے والدین کو یاد رکھیں۔ سبیکا شیخ تو گوکہ اب کبھی واپس نہیں آئیگی لیکن اس تو اب بھی موجود ہے اس کی صورت میں اور بھی سبیکا شیخ موجود ہیں جو کچھ اسی کی طرح تعلیم کیلئے بیرون ملک میں اور کچھ اسی ملک میں دوسرے شہر میں۔۔۔ ہاں کچھ اور بھی قوم کی بیٹیاں ہیں خاص طور پر ایک بیٹی جو برسوں سے امریکہ کی جیلوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا بگھت رہی ہیں وہ مریم کی ماں وہ احمد کی ماں کہ جس کی ماں برسوں سے امریکی جیل میںقید تنہائی میں کسی ابن قاسم کا انتظار کررہی ہیں۔ وہ عافیہ کے جس کی والدہ سے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے یہ کہا تھا کہ میں سو دنوں میں اسے باعزت رہائی دلواکر واپس لے آﺅنگا۔ لیکن وہ وعدہ پورا نہ ہوا اور ابھی تک کسی بھی حکمران نے اس کی واپسی کیلئے کچھ نہ کیا۔

نہ بھولیں کشمیر کے ان شہیدوں کو جنہیں بھارتی فوجیوں نے ماہ رمضان میں شہید کیا ان زخمیوں کو جنہیں پے درپے گولیاں مار کر شدید تر زخمی کردیا جنہیں زندہ ہوتے ہوئے بھی بے جان کردیا۔ نہ بھولیں ان بہنوں کو ان ماﺅں کو ان کی آہ و بقا صرف پاکستان کیلئے بلند ہوتی ہے، آزادی کیلئے آواز بلند ہوتی ہے۔ اپنی عید کی خوشیوں میں مسرتوں میں شام و برما، عراق و فلسطین سمیت دنیا میں موجود تمام مظلوم مسلمانوں کو بھی نہ بھولیں۔ یاد رکھیں ان جس طرح سے بھی ہو انہیں اس بات کا احساس دلائین کہ احساس ان کیلئے موجود ہے، آپ ان کے ساتھ ہیں۔ اس لئے ائے قوم کے باشعور ہم وطنوں

تم عید مناکر ان کو بھول نہ جانا دعاﺅں،
افلاس ہے رقص کناں جن کی ٹھوٹی پھوٹی کٹیاﺅں میں ۔۔۔۔

زندگی بہت خوبصورت ہے اور اس زندگی میں جو بھی زندہ ہوتے ہیں وہ مسرتوں کو محسوس کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو مزید مسرتوںسے لبریز کرنے کیلئے جہت کرتے ہیں۔ تاہم ایسی زندوں کیلئے بھی کچھ کہا جانا ہی نہیں کیا جانا چاہئے کہ جن کا علم ہی نہ ہو کہ وہ زندہ بھی ہیں یا کہ نہیں، امنہ مسعود جنجوعہ جو برسوں سے اپنے شریک حیات کو ڈھونڈ رہی ہیں اور اس جہد میں وہ سینکڑوں لاپتہ افراد کو بازیاب کراچکی ہیں لیکن اب تلک ان کا شریک حیات تاحال لاپتہ ہے۔ اس لئے ان کا بھی احساس کیا جانا چاہئے انہیں یاد رکھا جانا چاہئے،عید ان کی بھی ہے۔۔۔۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، برسوں سے امریکہ میں قید ناکردہ گناہوں کی سزابھگت رہی ہیں. یہ کہنا، پڑھنا اور لکھنا آسان ہے تاہم اپنے پیاروں کے بغیر ایک بھی عیدکس طرح گذرتی ہے اس کا احساس ان سے پوچھ کر کیا جاسکتا ہے جو اپنے پیاروں سے دور عید گذارتے ہوں.بارہا یہ نقطہ آجانے کے بعد کہ عافیہ کی رہائی مخص ایک خط کی دوری پر ہے پھر نجانے وہ کیا وجہ ہے جس کے سبب یہ بے حس حکمران ایک خط اب تک نہیں لکھ پائے ہیں. گزشتہ دنوں تو حد اس طرح سے بھی ہوگئی کہ ایک جانب سبیکا شیخ کی میت وطن واپس آرہی تھی اور دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر یہ افوا پھیلائی گئی کہ عافیہ جیل میں ہی فوت ہوگئی۔۔۔

اس افوا سے عافیہ کے گھر والوں سمیت پوری قوم پر کیا بیتی اس کا احساس نہ امریکہ کو ہے نہ اقوام متحدہ کو نہ یورپ کو اور نہ پاکستان کے حکمرانوںکو، بحرحال وہ زندہ ہے اور اب بھی کسی ابن قاسم کی منتظر ہے۔۔۔پوری قوم سمیت امت مسلمہ اور انسانیت عافیہ کی جلد رہائی چاہتی ہے . یہی وجہ ہے کہ آج تک قوم عافیہ کو یادرکھنے کے ساتھ اس کی رہائی کیلئے دعائیںکی جاتی ہیں۔ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو تن من دھن سے عافیہ کو امریکی قید سے رہائی دلانے کیلئے عملی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں،ان کی محنت جاری ہے اور وہ اس کی واپسی تک جاری رہی گی ۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی بہن سے متعلق بتاتی ہیںکہ عافیہ بہت چنچل اور طبیعتاََ خوش مزاج تھی، چاند رات کو اول تو سونا ہی کم ہوتا، مگر فجر کی اذان پر شور مچا دیتی ”اٹھو آج عید ہے، دیکھیں مہندی کا رنگ کیسا آیا ہے۔ جلدی نماز پڑھیں، اللہ کا شکر ادا کریں۔

وہ عید کی شاپنگ اور کپڑوں کی ڈیزائننگ امی کے ساتھ کرتی۔ کپڑے کے معاملے میں بہت نفاست پسند تھی اور سخت یا چبھنے والے کوئی فیبرک یا ڈیزائن پسند نہیں کرتی تھی، کپڑے گھر پر ہی سلتے اور کڑھائی بھی خود ہی کرتی۔عافیہ ماشااللہ بہت اچھی کڑھائی کرتی تھی۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے مزید بتا یا کہ عافیہ اپنی دوستوں، سہیلیوں کے مہندی ڈیزائن بناتی اور پھر شنک اور تحائف لے کر غریب بچیوں میں تقسیم کرتی۔ ایک چہل پہل مچی رہتی۔ ابو اس کو اپنی بلبل کہتے تھے۔ آج اس کی آواز کو ہم ترس رہے ہیں نہ جانے اللہ کو کیا منظور ہے۔وہ کب واپس آئیگی۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بچوں کے متعلق بتایا کہ کوئی بھی تہوار ہمارے لیے گراں گزرتا ہے، ان بچوں کی خاطر آنکھوں میں آنسو چھپائے چہرے پر مسکراہٹ رکھتی ہوں۔بحرحال ہم اس عید کو منائیں گے کیونکہ یہ عافیہ کی خواہش ہے اور ہم اسی انداز میں کو عید منانے کی کوشش کریں گے جس انداز میں عافیہ مناتی تھیں. ہم عید کے اور ہر خوشی کے موقع پر ان تمام لوگوں کو یاد رکھیں گے جنہیں عافیہ یاد رکھا کرتی تھی اور عید کے اس موقع پر تو ہم دنیا بھر کے ان تمام لوگوں کو بھی یاد رکھیں گے جو عافیہ کی رہائی کی جدوجہد میں شریک ہیں. ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اسی جدوجہد کے نتیجے میں عافیہ جلد ہمارے درمیان ہوں گی۔
عید کا دن ہو یا کوئی بھی اور خوشی کا دن، ہر حال میں انہیں یاد رکھا جانا چاہئے کہ جو اب یہاں نہیں رہے وہ چلے گئے کچھ دوسری دنیا اور کچھ دیواروں اور سلاخوں کے پیچھے کی دنیا میں۔ جو موجود ہیں ان کو یاد رکھا جانا چاہئے اور ان کی واپسی کیلئے تحریک آگے بڑھنی چاہئے، ان کو واپس لانے کیلئے ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کیلئے وپ سب کچھ کرنا چاہئے جو ممکن ہے تاکہ عید کی خوشیوں میں ان کو صرف یاد ہی نہ رکھیں بلکہ ان کو اپنے ساتھ خوشیوں میں شامل کریں۔۔۔۔

تحریر : حفیظ خٹک