منتخب صدر کا دھیان خارجہ پالیسی کے اعلی عہدے پر کرنے پر مرکوز

Trump

Trump

واشنگٹن (جیوڈیسک) نہایت اعلی صدارتی کامیابی کے بعد، اب ڈونالڈ ٹرمپ کابینہ کے عہدے پر کرنے کی جانب توجہ مبذول کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں آئندہ چار برسوں کے دوران امریکہ کی خارجہ پالیسی مرتب اور عمل درآمد ہوگی۔

ٹرمپ انتظامیہ جن امور پر دھیان دے گی، ان میں عالمی دہشت گردی، مشرق وسطی میں عدم استحکام، روسی سرحد کے ساتھ مشرقی یورپ میں کشیدگی، چین کا بڑھتا ہوا فوجی اور معاشی اثر و رسوخ شامل ہیں۔

امی گریشن اصلاحات کا اہم معاملہ، جس کا ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران باربار ذکر ہوتا رہا، ان کی اولین ترجیح ہوگی، ایسے میں جب ٹرمپ نے عہد کر رکھا ہے کہ امریکہ کی میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار تعمیر کی جائے گی، جسے پھلانگنا نا ممکن ہوگا۔

’جانز ہاپکنز یونیورسٹی اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ سے تعلق رکھنے والے، چارلس اسٹیوننسن کے مطابق، ’’خارجہ پالیسی کے محاذ پر مؤثر عمل درآمد کے لیے منتخب صدر کو اپنے گرد انتہائی دانش مند حضرات تعینات کرنا ہوں گے، جو مناسب تجاویز پیش کر سکیں‘‘۔

اسٹیونسن نے انٹرویو میں بتایا کہ ’’ان فیصلوں کے لیے منتخب صدر کے پاس مختصر وقت ہوگا‘‘۔ ان کے پاس صدر اوباما اور سابق صدر بِل کلنٹن کی طرح کی مذاکرے کی طرح کے لمحات موجود نہیں ہوں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فوری فیصلے کریں جن کے لیے درکار پیشہ ورانہ ہنر رکھنا انتہائی اہم ہوگا‘‘۔

اپریل میں بیرونی پالیسی پر اپنے پہلے اہم خطاب میں، ٹرمپ نے تجربے کار افراد سے دور رہنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہو سکتا ہے اُن کے پاس اچھے ’رزیومے‘ ہوں، لیکن کچھ کر دکھانے کی جگہ صرف باتیں ہی ہوں، جو صرف ناکام پالیسیوں اور جنگوں میں نقصانات جھیلنے کی طویل تاریخ رکھتے ہوں ‘‘۔

’کونسل آف فارین رلیشنز‘ کی وزٹنگ فیلو، الزبیتھ سونڈرز نے بتایا کہ ’’ٹرمپ کے مؤقف کے نتیجےمیں سامنے آنے والے حقائق، منتخب صدر کو مجبور کردیں کہ وہ روایتی امیدواروں سے باہر جھانکیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’مسئلہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں نے اُن کے ساتھ کام نہ کرنے کے عہد پر دستخط کیے ہیں۔ اور کسی حد تک اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اُنھیں ناقابل قبول لگتے ہوں۔ لیکن، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ری پبلکین پارٹی کی بیرونی پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اُن کے کئی مسائل چل رہے ہوں‘‘۔

اگر ممکنہ امیدواروں نے اپنا ذہن تبدیل کرلیا ہو اور وہ اُن کی انتظامیہ میں کوئی عہدہ قبول کرنے پر تیار بھی ہو جائیں، تو سینڈرز نے سوال اٹھایا آیا ٹرمپ ایسے لوگوں کو قبول کریں گے۔

بقول اُن کے ’’اگر وہ اُنھیں لیتے بھی ہیں، تو کیا وہ اُن کی بات سنیں گے؟‘‘۔

بیرونی پالیسی کے امور پر کلیدی کردار ادا کرنے کے حوالے سے عہدوں پر تعیناتی کے معاملے پر عام طور پر ٹرمپ لب کشائی نہیں کیا کرتے۔ لیکن، درج ذیل کچھ نام ہیں جو عام طور پر لیے جا رہے ہیں۔