الیکشن یا احتساب

Election

Election

تحریر : چودھری عبدالقیوم
ملک بھر کی سیاسی جماعتوں نے غیراعلانیہ طور پر آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔کیونکہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت آئندہ سال مئی یا جون 2018 ء میں ختم ہو رہی ہے۔ اسی کی پیش نظر برسراقتدار پارٹی مسلم لیگ ن سمیت پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے اگلے الیکشن کے لیے اپنی سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں۔ایسے میں ملک کے سنجیدہ سیاسی اورسماجی حلقوں کی طرف سے اس رائے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ عام انتخابات احتساب کاجاری عمل مکمل ہونے کے بعد کرائیں جائیں ۔کیونکہ اس وقت ملک بھر میں برسر اقتدار رہنے والے سیاستدانوں کی کرپشن کے چرچے عام ہیں ۔ کرپشن اور آف شور کمپنیوں کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ پانامہ پیپرز میںبھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں سیاستدانوں کے نام شامل ہیں جن پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے ذریعے قومی سرمایہ بیرونی ممالک میں میں منتقل کرنے کے سنگین الزامات ہیں۔جس کے بعد سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کرپشن کے الزامات میں سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد اپنے اورخاندان کے دیگرافراد سمیت کرپشن کے کئی کیسز بھگت رہے ہیں۔

اس طرح ملک کے کئی سابق حکمران اور بہت زیادہ سیاستدان شامل ہیں جن پرکرپشن کے بہت زیادہ الزا مات ہیں ۔اب جب کہ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے آخری ایام گذار رہی ہے اور سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاریاں بھی کرہی ہیں ۔ ایسے میں نیب اور احتساب عدالتوں میں سابق نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف اور دیگر لوگوں کیخلاف احتساب کا عمل شروع ہے۔ ایسے میں یہ بہت زیادہ مناسب ہوگا کہ کرپشن کیخلاف جاری کیسز کیساتھ کرپشن کے ایسے دیگر تمام کیسز کا بھی فیصلہ ہوجائے تاکہ جو لوگ قومی خزانہ لوٹنے اور کرپشن میں ملوث ہیں انھیں سزائیں مل جائیں۔ اس طریقہ سے آئندہ کرپشن کی روک تھام میں مدد ملے گی۔تاکہ مستقبل میں کرپٹ لوگوں آگے نہ آسکیں ۔اگر کرپشن میں ملوث سابق حکمرانوں اور سیاستدانوں کا احتساب نہ ہوا اور انھیں سزائیں نہ ملیں تو آئندہ الیکشن میں بھی یہی لوگ دوبارہ برسراقتدار آجائیں گے کیونکہ موجودہ نظام اور الیکشن کے طریقہ کار میں عام اور باکردار لوگوں کا آگے آنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

ملک کے عوام تو چاہیں گے کہ الیکشن احتساب کا عمل مکمل ہونے کے بعد کرائیں جائیں لیکن کرپشن میں ملوث عناصر جو بہت زیادہ بااثر اور طاقتور بھی ہیں کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی کرپشن کیخلاف احتساب کا عمل جاری رہے وہ اس کے خلاف ہر طرح سے مزاحمت کریں گے ان کی یہی کوشش ہوگی کہ موجودہ طریقہ کار اور نظام کے تحت جلدازجلد انتخابات کرائیں جائیں تاکہ ملک میں نئے اور صاحب کردار لوگوں کی قیادت آگے آنے کی بجائے دوبارہ وہی اقتدار پر قابض ہوجائیں اس طرح کرپشن کیخلاف جاری عمل ٹھپ ہوکر رہ جائے کیونکہ جب کرپٹ لوگ برسراقتدار آجائیںگے تو وہ تو کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ احتساب کا عمل جاری رہے اور نہ ہی کوئی احتساب کا ادارہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرسکتا ہے کیونکہ کرپشن میں ملوث یہ عناصر اتنے بااثر اور طاقتور ہیں کہ ادارے ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

ایسے حالات میں اگر ملک میں کرپشن کیخلاف احتساب کا عمل کسی طور شروع ہوا ہے تو اس کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ۔ اس کے لیے مخلص سیاسی پارٹیوں،عدلیہ،وکلاء برادری کیساتھ میڈیا اور عوام کو اپنا کردار کرنا پڑے گا کہ وہ الیکشن سے پہلے احتساب کا عمل مکمل کرانے کے لیے اپنا اپنا قومی کردار ادا کریں اور اس کے لیے آواز اُٹھائیں ۔تاکہ ملک میں کرپشن کیخلاف جاری احتساب کا عمل مکمل ہوسکے کرپٹ لوگوں کو سزائیں مل سکیںاور ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت قومی خزانے میں واپس لائی جاسکے۔ اس طرح ہی آئندہ کرپشن کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے ۔ اوراس کے بعد عام انتخابات کرائے جائیں تاکہ کرپٹ مافیا کو دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع نہ ملے اور ملک میں ایماندار اور ،قومی جذبہ سے سرشار باکردار قیادت سامنے آئے ۔تاکہ پاکستان صیح معنوں میں اسلامی فلاحی اور ترقی یافتہ ملک بن سکے اور یہ کرپشن میں ملوث لوگوں کا احتساب ہونے کے بغیر ناممکن ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا اور احتساب کے بغیر عام انتخابات کرا دئیے جاتے ہیں تو پھر وہی کرپشن میں ملوث پرانے لوگ اقتدار میں آ جائیں گے۔

Ch. Abdul Qayum

Ch. Abdul Qayum

تحریر : چودھری عبدالقیوم