انتخابی مہم، موسیقی کا شور اور عوام

PTI Jalsa

PTI Jalsa

تحریر : سید عارف سعید بخاری

انتخابی مہم سمیت مختلف مذہبی ،سیاسی ،سماجی، تجارتی اور تعلیمی پروگراموں میں موسیقی کا اہتمام ہماری روایت بن چکا ہے ،اس موسیقی سے بسا اوقات لوگوں کو کافی ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اسی شور شرابے کو دیکھتے ہوئے ہمیں معروف آرٹسٹ ،کارٹونسٹ اور قلم کار فاروق قیصر (انکل سرگم) کا ایک کارٹون یاد آنے لگا ہے جس پر لکھا تھا کہ ”اگر یہ میراثی نہ ہوتے تو ہم 14 اگست (جشن آزادی پاکستان) کیسے مناتے ۔؟بیشک ! موسیقی روح کی غذا سہی لیکن یہی موسیقی جب ہم بلند آواز سے لوگوں کو سنانے لگتے ہیں تو یہ بے سکونی اور ذہنی اذیت کا سبب بننے لگتی ہے جدید دور میں موسیقی کیلئے ایسے ایسے آلات ایجاد کر لئے گئے ہیں کہ جن کی بدولت کئی کئی سر لوگوں کو سنیں کو ملتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ موسیقی میں بھی جدیدیت پروان چڑھنے لگی ہے۔

موسیقی کے ذریعے سیاست چمکانے کی روایت بھی قدرے پرانی ہے مگر کینسر ہسپتال کے روح رواں قائد تحریک انصاف عمران خان نے اسی کی بنیاد پر اپنی دھرنا اور احتجا جی تحریک کوبھی وسعت دی ،انہوں نے ملک کے نوجوانوں سمیت قوم کی بہو بیٹیوں کو دھرنوں کے دوران سرعام نچوا کر اپنی پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے کی کوشش کی ۔ اس طرح انہوں نے موسیقی کی لے پر رقص و سرور سے لطف اندوز ہونے والے ایک ”میوزک کینسر زدہ ” معاشرے کی بنیاد رکھ دی ہے ۔دیگر جماعتیں بھی کسی حد تک ان کی تقلید میں پیش پیش ہیں۔جدید ریسرچ میں بھی بچوں کو موسیقی کے ذریعے تعلیم دینے کو بہترنتائج کا حامل قرار دیاگیا ہے ،ریسرچ کے مطابق موسیقی کے ذریعے بچے زیادہ بہتر طریقے سے اپنا سبق یاد کر پاتے ہیں۔ممکن ہے کہ مستقبل میں بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے موسیقی کو لازم قرار دے دیا جائے۔پی ٹی آئی کے حمایتی تو اس قبیح فعل پر کی جانے والی تنقید کو مخالفین کی شکست خوردہ سوچ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن اگر حقیقت میں اس معاشرتی المیے پر غور کیا جائے تو ہم یہ کوئی اچھا کام نہیں کر رہے۔

ان دنوں الیکشن کا دور دورہ ہے اس مہم میں بھی اکثر امیدواران کے الیکشن دفاتر میں رات گئے بلند آوازسے موسیقی کا سلسلہ پورے زور وشور سے جاری ہے ،کسی امیدوار کو اپنے ووٹرز کی تکلیف کا احساس نہیں ہو رہا ، اسی ڈگر پرہم نے مذہبی،سیاسی ،سماجی اور تعلیمی پروگراموںسمیت کمرشل ایریاز میں شاپنگ مالزاور دکانوں کے افتتاح اور گرینڈ سیل میلوں میں بھی موسیقی کو ایک لازمی جزو بنا لیا ہے ۔پاکستان بھر میں خصوصاًراولپنڈی شہر اور کینٹ کے کمرشل ایریاز میں شاپنگ مالز اور سیل اسکیموں کے افتتاح کے موقع پر بلند آواز سے موسیقی کا اہتمام بھی لازم و ملزوم سمجھ لیا گیا ۔بڑے بڑے ڈیکوں پر بے ہودہ انڈین،انگلش اور عربی موسیقی کے ذریعے کاروبار چمکانے کی روش نے شہریوں خاص طور پر کمرشل ایریاز کے مکینوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔ایک طرف ہم مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں جبکہ دوسری طرف اپنی دکانوں اور شاپنگ مالز کے افتتاح کے موقع پر اور گرینڈ سیل کے نام پر انعامی اسکیموں کا لالچ دے کر اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے ایسے مواقعوں پرہم اللہ اور اُس کے رسولۖ کا نام لینے کی بجائے گانے بجانے والوں کو بلا کر اپنے کاروبار کو چار چاند لگانے کی سعی کرتے ہیں۔

اپنے ان پروگراموں کیلئے ہم مین شاہرات پر باقاعدہ قبضہ جما لیتے ہیں اور رات گئے موسیقی لگا کر ادہم مچاتے پھرتے ہیں لوگ ذہنی مریض بنیں یا بچوں کی تعلیم میں خلل پڑے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ،کمرشل ایریاز میں تو یہ صورتحال پہلے ہی گھمبیرتھی مگر گذشتہ چند سالوں سے رہائشی علاقوں میں کمرشل تعمیرات کی اجازت دینے سے قرب و جوار کے مکین ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں مبتلا ہو تے جارہے ہیں ،اس شور شرابے کی وجہ سے اکثر لوگ ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں ۔سارا دن اور رات گئے موسیقی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے ،کمرشل مارکیٹ میں تو ایسے کاروباری افراد بھی اسی بیماری سے دوچار ہیں جن کی زبانیں قرآن و حدیث کی تعلیمات خصوصاًحقوق العباد کے حوالے سے بتائے گئے مسائل بیان کرتے نہیں تھکتیں ۔ان باریش افرادکے قول و فعل میں تضاد اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے ۔۔؟ مگر انہیں مخلوق خدا کو اذیت سے دوچار کرتے وقت سب کچھ بھول جاتا ہے۔

کوئی انسان بیماری کی وجہ سے کتنا ہی بے بس و لاچار ہو، انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا ۔اگر کوئی شخص انہیں اپنی تکلیف کی بابت آگاہ کرکے اس شور شرابے کو بند کرنے کی استدعا بھی کرے تو ان کے کانوں پر جُو تک نہیں رینگتی ۔الٹا شکایت کنندہ کو تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی یہ عناصر نہیں چوکتے۔آخر کب تک لوگ اس صورتحال کو برداشت کرتے رہیں گے ۔پیدا شدہ صورتحال سے لوگوں کا سکون غارت ہو چکا ،لیکن پولیس یا انتظامیہ شہریوں کی ان تکالیف پر کوئی ایکشن لینے سے گریزاں نظر آتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنی اداؤں اور رویوں پر خود بھی غور کریںکہ ہماری اس روش سے لوگوں کو کس قدر اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ایک لمحہ اگر ہم اس معاملے میں اپنا احتساب خود کریں تو سب کچھ عیاں ہو جائے گا ،انسانوں کو تکلیف دینا ایک بڑا گناہ ہے جس سے ہمیں گریز کرنا چاہئے ، امیدواران کواس طرف خودتوجہ دینا چاہئے ۔اس کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ ،پولیس اور دیگر حکام کو بھی چاہیئے کہ وہ شادی بیاہ پر ہوائی فائرنگ اور آتش بازی پر پابندی کی طرح دکانوں پر بلند آواز سے موسیقی لگانے سمیت ایسی دیگر خرافات کی روک تھام کیلئے اقدامات پر خصوصی توجہ دیں اور عوام کو پُرسکون زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں ،یقینا اس کی روک تھام حکومت کے ارباب اختیار کا قوم پر احسان ہو گا۔

Syed Arif Saeed Bukhari

Syed Arif Saeed Bukhari

تحریر : سید عارف سعید بخاری
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com