الیکشن ٢٠١٨ء ۔سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ

Pakistani Politics Party

Pakistani Politics Party

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ

بانی ِپاکستان حضرت قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ہم نے پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست بنانا ہے۔ ٢٦ مارچ ١٩٤٨ء چٹاگانگ میں قائد نے فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا” اگر قائڈ کے اس وژن کو سامنے رکھ کر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے کہ کس کس نے قائد کی سوچ کے مطابق پاکستان کو چلایا تو سب سے پہلے پاکستان کی خالق مسلم لیگ کو ہی لے لیتے ہیں۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان صاحب کے بعد مسلم لیگ پٹڑی سے اُتر گئی۔ نہ پاکستان کو وقت پر اسلامی آئین دے سکی اور نہ ہی اس ملک کو مدینہ کی جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کی سمت لگایا گیا۔ آپس میں وزراتیں باٹنے میں لگے رہے اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو صاحب نے پاکستان کی سیاست پر آوازہ کسا تھا، کہ میں اتنی دھو تیاں تبدیل نہیں کرتا، جتنے پاکستان کے وزیر اعظم بدلتے ہیں۔قائد نے اسلامی نظام کی تیاری کے لیے خود نو مسلم علامہ اسد صاحب کو لگایا تھا۔مگر اس کو کام نہیں کرنے دیا اور اس کام سے ہٹا کر سفیر بنا دیا گیا۔پھر مسلم لیگ میں الف سے لے کر ی تک کے نام سے سیاسی پارٹیاں بنتی رہیں۔ملک میںمارشل لا لگتے رہے۔

جمہوری عمل متاثر ہوتا رہا۔ آخر میںنون مسلم لیگ بنی۔ اس کے سربراہ نے تین بار وزیر اعظم کا دفتر سنبھالا مگر قائد کے فرمان کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ اعلانیہ کہا میں سیکولر ہوں۔لاہور میں تقریر کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کی نفی کی۔جب پانامہ میں ان کے خاندان کا نام آیا تو خود دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک بار پاکستان کی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے درخواست کی کہ مقدمہ سن کر دودھ کاددوھ اور پانی کا پانی کر دیا جائے۔ عدالت نے مقدمہ سنا اور جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی۔ آمدنی سے زیادہ اثاثوں پرنوازشریف صاحب ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کو اڈیالہ جیل بھیج دیا ۔اے کاش کے عدلیہ کے فیصلہ کو تسلیم کرتے اور ملک سے لوٹا ہوا پیسا غریب عوام کے خزانے میں داخل کر دیتے۔ شاید عوام معاف بھی کر دیتے۔مگر کھل کر فوج اور عدلیہ کے خلاف معاذ کھول دیا ۔پاکستان میں قائد کے وژن کے مطابق اسلامی نظام حکومت کیا قائم کرتے الٹا پاکستان کی سا لمیت پر حملے شروع کر دیے۔ عوام سے فوج عدلیہ مخالف بیانیہ پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔دیکھیں ٢٥ جولائی کی شام عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ پارٹی تو شروع سے ہی روش خیال ، ترقی پسند اور اسلام دشمن رہی ہے۔ اس کے با نی نے سوشلزم کا بیڑا اُٹھایا۔ملک کی انڈسٹری کو قومیایا۔ عوام کو حقوق اور جمہوریت کے نام پر اُکسایا۔ مل مزدروں نے مل مالکوں اورہاریوں نے زمینداروں سے لڑنا شروع کیا۔ جب عوام کو کچھ نہ دے سکے اور عوام نے شور مچاناشروع کیا ۔ عوام کنٹرول نہ ہوئے تو ان پر گولیاں چلائی گئی۔ آخر میں زمینداروں اور کارخانے داروں کو ساتھ ملایا۔ سارے الیکٹورلز کو اپنے ارد گرد جمع کر کے الیکشن کا اعلان کیا۔اپوزیش نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ بلاآخر ملک میں مار شل لا لگا۔ بھٹو صاحب کو قصوری کے قتل کے الزام میں پھانسی پرچڑاھا دیا۔پیپلز پارٹی نے فوج پر یوڈیشنل قتل کا الزام لگایا۔ اس کے بعد ان کی بیٹی بے نذیر صاحبہ دو دفعہ وزیر اعظم بنی۔ پیپلز پارٹی نے چار مرتبہ مرکز میں حکومت بنائی مگر پیپلز پارٹی ملک کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست نہ بنا سکی۔بے نذیر صاحبہ کو راوپنڈی میں جلسہ کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد الیکشن ہوئے۔پیپلز پارٹی جیتی۔ آصف علی زرداری نے حکومت بنائی۔ وہ پہلے سے ہی کرپشن میں مبتلا تھا۔ کرپشن کے مقدموں میں ٩ سال جیل میں بھی رہے۔سرے محل اور سوس بنکوں میں سرمایا جمع کیا۔ ریکارڈ غائب کر دیا تو نیب نے یہ کہہ کر مقدمہ داخل دفتر کر دیا کہ فوٹو اسٹیٹ پر کرپشن کا مقدمہ قائم نہیں کر سکتے۔ان کے پالیسیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی۔ اب لندن ریٹرن بلاول زرداری بھٹو چیئرمین پیپلز پارٹی سیاست میں آئے ہیں۔ وہ نانا اور اور والدہ کے نام سے عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ چار دفعہ حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی نے ملک کو اسلامی فلاحی ریاست نہیں بنایا تو اب روشن خیال بلاول زرداری بھٹو کیا رنگ لائیں گے۔ دیکھیں! قوم کیا فیصلہ کرتی ہے۔

کرکٹ میں نام پیدا کرنے والا عمران خان صاحب تحریک انصاف بنا کر پچھلے ٢٣ سال سے سیاست کر رہے ہیں۔٢٠١٣ء کے الیکشن میں ٨٠ لاکھ ووٹ لے سامنے آیا۔ اس نے نواز شریف پردھاندلی کا الزام لگایا اور دھرنا دیا۔بڑے زور شور سے کہا کرتے تھے کہ کرپشن سے پاک نیا پاکستان بنائوں گا۔ خیبر پختون خواہ میں جماعت اسلامی سے اتحاد کر کے کچھ اچھے کام بھی کیے۔ مگر وزیر اعظم بننے کی شدید خواہش نے انہیں بھی ٹریک بدنے پر مجبور کر دیا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سارے کرپٹ الیکٹورلز کو ساتھ ملا لیا۔ خود توبہت خوش ہیں مگر عوام میں اس حرکت سے مایوسی چھائی گئی ہے۔ اب عمران خان صاحب کے جلسوں میں کرسیاں خالی نظر آنے لگی ہیں۔

عمران خان کہتے تو ہیں کہ پاکستان کو قائد کے وژن کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست بنائوں گا۔ مگر عمل سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔ جلسوں میں بے حیائی کے کلچر کو عام کیا۔ قوم کی بچیوں کو ناچ گھانے پر لگا دیا۔قادینوں سے ووٹ مانگنے کی ویڈ یوائر ہوئی۔ قادیانی کی حمایت کرنے والا حمزا عباسی ان کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ مذہب کے باغی گویّے اس کی پارٹی میں عام مل جائیںگے۔ اس کے اسٹیج سیکر ٹیری اور مرکزی لیڈر کی لڑکی کے ساتھ ڈانس کی ویڈیو سوشل میڈیا پرچل رہی ہے۔عامر لیاقت جس نے الیکٹرونک میڈیا میں اپنی مداری پن سے مذہب کو بدنا م کیا اس کو ٹکٹ جاری کیا۔ہاں اس پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا۔ مگر ارد گرد سارے کرپٹ ،دین بیزار اور بے حیاء لوگ جمع ہیں۔ مخالفوں نے سوشل میڈیا پر عمران خان کی قابل اعتراض پوسٹیں لگائیں ہیں۔ کہتے جو ایسا ایسا اور ایک ضدی شخص ہے اورجو اپنا گھر نہ بسا سکا وہ ملک کو کیسے چلائے گا۔ پھر بھی فیصلہ عوام کے پاس ہے دیکھیں ٢٥ جولائی کو کیا ہوتا ہے۔

ان تینوں پارٹیوں کے مقابلے میں دینی جماعتوں کا اتحاد، متحدہ مجلس عمل الیکشن میں سامنے آیاہے۔ متحدہ مجلس عمل نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حکومتیں بنانے کے لیے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں۔یہ لوگ کسی پارٹی سے ٹوٹ کر نہیں آئے یعنی لوٹے نہیں۔ان کے اسلاف شاندار ماضی رکھتے ہیں۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو یہ ہی قائد کے سچے جانشین ہیں۔ انہوں نے پاکستان کومدینہ کی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کے لیے دستوری مہم شروع کی تھی۔ان ہی کی کوششوں سے قرارداد پاکستان آئین کا حصہ بنی۔ ان کی وجہ سے پاکستان کا موجودہ اسلامی آئین بھٹو کے دور میں بنا۔ ان ہی کے پریشئر کی وجہ سے پاکستان میں فحاشی اور بے حیائی کے خلاف بند باندھا ہوا ہے۔ یہ ہی تحفظ ناموس رسالت ۖکے چوکیدار ہیں ۔ان ہی کی وجہ سے نون لیگ اور پی آئی کی ختم نبوت کی شق کو ختم کرنے کی سازش کو ناکام بنایا۔ ان کے کسی لیڈر نے کبھی بھی بنکوں سے قرضے نہیں لیے تو معاف کیا کراتے۔یہ ملک میں روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے والے علماء ہیں۔

ان پرکرپشن کا بھی الزام نہیں لگا۔ان کے کسی امیدورا کا نام آف شور کمپنیوں میں نہیں آیا۔یہ ہی قائد کے وژن کے مطابق ،پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے قابل ہیں۔ عوام کواللہ نے ایک اور موقہ عطا کیا ہے ۔ ان کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھیجیں تاکہ ملک میںسودی نظام کو ختم کریں۔انگریز کے قوانین کو ختم کر کے اسلام کا عدالتی نظام قائم کریں۔فضول خرچی ختم کے عوام کے پیسے بچا کر تعلیم پر خرچ کریں۔آئین کے مطابق قائم اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرنا شروع کریں۔ جب ملک میں سارے قانون قرآن اور سنت کے مطابق ہوجائیںگے۔پھر اللہ آسمان سے رزق اُتارے گا۔ زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔ دہشت گردی ختم ہو گی امن امان ہوگا۔ بے روزگاری ختم ہو گی۔ خوشحالی ہو گی۔ حقدار کو حق ملے گا۔ہاں یہ اسی وقت ہو گا جب عوام ٢٥ جولائی کو ایم ایم اے کے امیدواروں کو اپنے ووٹ سے چن کر پارلیمنٹ میں بھجیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ