انتخابات بروقت مگر حکومت مخالف نئے سیاسی اتحاد

Elections

Elections

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
روان حکومت کی مدت 3 جون 2018 ءکو ختم ہوگی اور 60 دِنوں میں الیکشن کمیشن کو انتخابات کرا نے ہوں گے اِس لحاظ سے اگر اپوزیشن اور نئے جنم لینے والے سیاسی پینترے باز اتحادیوں نے کو ئی نئی ڈرامہ بازی یا دھرنا مکاری کا سہارا نہ لیا تو اگست 2018 ءکے پہلے ہفتے کو انتخا بات متوقعہ ہیں اور اگربے صبرے اتحادیوں کی جانب سے کوئی ہلڑ با زی ہو گئی تو پھر قبل ازوقت یا پھر ؟باقی خود سمجھ جا ئیںاور کیا امکانات ہوسکتے ہیں یہ تو تب ہی پتہ لگے گا مگر ابھی اچھا ہی سوچیں۔جبکہ اِن دِنوں مُلک میں حیرت انگیزطور پر نئے سیاسی اتحاد تیزی سے جنم لے رہے ہیں یا اِنہیں کہیں سے کو ئی اشارہ مل رہاہے تو جلد ی جلدی نئے سیاسی اتحاد تشکیل دیئے جا رہے ہیں گویاکہ گھاٹ پر شیر اور بکری ایک ساتھ پا نی پیتے دِکھا ئی دے رہے ہیں بعض اتحادی ایک ساتھ جمع ہو کر حکومت کے خلاف اپنا حصہ ڈالنے کو تیارہیں تا کہ اگلے متوقعہ انتخا بات میں اتحادیوں کو اِن کی خواہشات کے مطابق نتائج حاصل ہوسکیںسواِس جذبے کی بنیا د پر اتحادی اپنے نظریات اور ضروریات کی وجہ سے ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں اوراَب یہ حکومت مخالف جلد باہر نکلنے کو پھڑپھڑا رہے ہیں۔

آج مُلک میں جیسے سیاسی اتحاد جنم لے رہے ہیں ،توسُنیئے ،کوئی کسی کے ایسے ہی اتحادی نہیں بن جا تے ہیں،سب کے کچھ نہ کچھ اور بہت کچھ اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات بھی ہوتے ہیں،کبھی کو ئی اتحاد فی سبیل اللہ وجود میں نہیں آیا ہے،اَب دیکھتے ہیں کہ اگلے انتخابات سے قبل کتنے اتحاد جنم لیتے ہیں؟ اور کون کس کو کس طرح گلے لگاتا ہے ؟اور کون سا دریاسمندر میں اور کونسا سمندر دریا میں گرتا ہے ؟ ہما رے یہاں یہ کو ئی عجیب با ت نہیںہے بلکہ مُلک پاکستان میں تو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطر ستر سالوں سے یہی ہوتا آیا ہے اور دیکھا گیاہے کہ اکثر سمندر ہی دریا میں گرا ہے اور اپنے مقصد میںپوری طرح کا میاب ہواہے اِس مرتبہ بھی حالات کچھ ما ضی سے مختلف نہیں ہیں۔

بہر کیف ، یہ بہت اچھا ہوا کہ سینیٹ سے بھی حلقہ بندیوں سے متعلق ترمیمی بل منظورہوگیا ہے اور اِس حوصلہ افزا پیش رفت سے اِتنا تو ہوا ہے کہ اُن خدشات اور خوف کا کسی حد تک ضرور خاتمہ ہوگیا ہے جن کی وجہ سے یہ خیال کیاجا رہاتھا کہ اگر ابھی حلقہ بندیوں کے ترمیمی بل کی منظوری نہیں ہو ئی جیسا کہ پی پی پی نے اپنی سیاست چمکانے کے خاطر پہلے ہی ایک دو ماہ فضول کے نکال دیئے اور اِسی طرح اگر اب بھی حلقہ بندی ترمیمی بل کو ہماری سیاسی جماعتیں دیدہ دانستہ لٹکا ئے رکھتیں اور وقت ضیائع کرتی رہتیں تو مُلک میں بروقت انتخا بات کے انعقاد کے بہت کم امکان با قی رہتے اور انتخابات وقت پر نہ ہوتے۔

مگرچلیں ،کچھ تو بہتری آئی اور مُلک میں ترمیمی حلقہ بندی بل کی منظوری سے بروقت انتخابات کی راہ کسی حد تک ہموار ہوگئی ہے الیکشن کمیشن کو چھ ما ہ درکار ہیں اِس عرصے میں الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیا ں کرلے گا اور متوقعہ انتحابات بروقت ہوجا ئیں ۔مگر ٹھیریں ، اِس کے با وجود بھی ابھی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے ون پوا ئنٹ ایجنڈااور حکومت مخالف سیاسی گرما گرم درجہ حرارت سمیت بہت سے ایسے ظاہر اور باطن محرکات موجود ہیں جن کی وجہ سے ابھی خدشات اور مخصے موجود ہیں جو بروقت انتخا بات کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگا سکتے ہیں۔

مُلک کے طول و ارض میں جاری گرما گرما سیاسی درجہ حرارت میں جس طرح جوش پیداہورہاہے اِس صورتِ حال میں قطعاََ یہ نہیںکہا جا سکتا ہے کہ حکومت مخالف اتحادی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کو عملی جا مہ پہنانے کے لئے امن و سکون کی راہ اپنا ئیں گے بلکہ آج حکومت مخالف جیسے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں اِن سے تو صاف طور پر یہ ظاہر ہورہاہے کہ جیسے یہ الائنس حکومت کو ٹف ٹا ئم دیں گے اوراتحادی حکومت مخالف تحاریک کو اپنی پُرتشدت کارروا ئیوںسے رنگ کر اپنے ایجنڈے اور اپنے عزائم کی تکمیل چاہیں گے توکیا اُس وقت یہ اُمید کی جاسکے گی کہ انتحابات بروقت ہوں گے؟۔

چلیں چھوڑیں ایک اِس موقع پر راقم الحرف دل کی ایک بات کہنا چاہ رہا ہے توسُنیئے، آج نوازمخالف زرداری و عمران سمیت دیگرسیاستدان طاہرالقادری کے ہا تھ پر لا کھ بیعت کرلیں اورچاہئے مُلک کے تمام سیاستدان نوازشریف کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا کیوں نہ ارادہ کرلیں اور یہ سب مل کر بھی اگلے متوقعہ انتخابات میں نوازشریف کو شکست سے دوچارکرنا چا ہیں تو یہ لوگ نوازشریف کا بال بیکا نہیںکرسکتے ہیں کیو ں کہ اِن دِنوں 28جولا ئی کے سُپریم کورٹ سے اپنی نا اہلی کے فیصلے کے بعد مسٹر جنابِ مسٹرسابق وزیراعظم نوازشریف عدلیہ کے خلاف”پاگل یا بھیڑ بکریاں نہیں جو ایسے فیصلے قبول کرلیں ترازوانصاف کا ہونا چا ہئے تحریک انصاف کا نہیں،سکھا شاہی نہیں چلے گی ، پہلے عدلیہ اَب عدل کے لئے تحریک چلا ئیں گے “ جیسی بدکلامی اور زبان درازی کرتے پھررہے ہیں اور عدلیہ مخالف زورشعور سے تحاریک چلانے کا اعلان کررہے ہیں تو کیا اِن کا عدلیہ کے خلاف یہی رویہ اِن کی بربادی کا خود سا مان نہیں پیداکررہا ہے۔

یقینا اِس منظر اور پس منظر میں یہ کچھ سمجھ نہیں آرہاہے کہ اپنی نا اہلی کے کیچڑ سے لت پت عدلیہ مخالف نوازشریف اپنی پارٹی کی انتخابی مہم عدلیہ مخالف فیصلے کی بنیاد پر چلانا چاہ رہے ہیں یایہ اور ن لیگ والے اپنی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر انتخا بی مہم چلائیں گے نوازشریف کا موجودہ رویہ تو صاف طور پر یہ ظاہر کررہاہے کہ نوازشریف اگلے انتخا بات کے لئے اپنی پارٹی ن لیگ کی انتخا بی مہم عدلیہ مخالف زبان درازی اور بدکلامی پر ہی چلانا زیادہ بہتر محسوس کررہے ہیں کیو نکہ اِن کا اگلا ایجنڈا یہی ہے کہ اگر اگلا اقتدار ن لیگ کے ہتھے لگ جا تا ہے تو ووٹ کے تقدس کے سہارے عدلیہ اور افواج جیسے مقدس اداروں کے اختیار جس قدر ہو سکے زیادہ سے زیادہ کم کئے جا ئیں گے اور خا ص طور پر اِن دونوں اداروں کو حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے مجبورکردیا جا ئےگا تا کہ پھر عدلیہ جیسا کو ئی ماتحت ادارہ آف شور کمپنیوں اور لوٹ مارکرنے والوں کو کسی اقا مے کی بنیاد پر کان سے پکڑ کر با ہر نہ پھیکنے پا ئے اِس بِنا پر آج نوازشریف کا عزمِ خاص یہ ہے کہ اگلا الیکشن حکومتی کار کردگی کے بجائے عدلیہ مخالف زبان درازی کی بنیاد پر جیتا جا ئے اور ایک ایسا کام کردیا جا ئے تا کہ ادارے اپنی من ما نی حکمرانواور سیاستدانوں پر نہ چلا سکیں۔ تاہم نوازشریف کی انتخا بی مہم میں عدلیہ مخالف سرگرمیاں ہی اِن کی شکست اور پسا ئی کا سبب بن سکتی ہے تب ہی تو راقم الحرف کہہ رہاہے ” زرداری و عمران اور دیگر طاہر القادری کی قصاص تحریک کے لئے لاکھ بیعت کرلیں اِن سب کی کوشش اپنی جگہہ جیسی بھی ثا بت ہومگر اَب نوازشریف کی عدلیہ مخالف تحریک ہی خود اِن کا با ل بیکا کرنے کے لئے کافی ہے۔(ختم شُد

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com