عام انتخابات اور پاکستانی سیاستدان

Elections

Elections

تحریر : منظور احمد فریدی

اللہ جل شانہ کی بے پناہ حمد و ثناء اور جناب محمد رسول اللہ ۖ کی ذات مطہرہ پر درودو سلام کے کروڑوں نذرانے پیش کرتے ہوئے راقم نے چند سطور عام انتخابات کے حوالہ سے نذر قارئین کی ہیں قارئین کرام کی میٹھی کڑوی آراء کا انتظار رہے گا کسی بھی جمہوری ملک میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے انتخابات ہی بہترین طریقہ کار سمجھے جاتے ہیں اور اگر یہ صاف شفاف ہوں تو عوام کے ذریعے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچنے والے نمائندے خالص عوامی نمائندے سمجھے جاتے ہیں اسمبلی میں واضح اکثریت ثابت کرکے حکومت تشکیل دینے والی سیاسی پارٹی اپنا وزیر اعظم اور پھر وزیر اعظم اپنی پوری کا بینہ تشکیل دیتا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کا سربراہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ حکومت کے ہر اچھے کام جس میں عوامی فلاح ہو انسانیت کو فائدہ ہو پر اسکی معاونت اور حکومتی اراکین کی غلطیوں پر مثبت انداز میں تنقید کرکے انہیں ایسا کرنے سے روکتا ہے یوں کسی بھی ریاست کا نظام چلتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے اور ریاست دنیا کی بہترین ریاستوں میں شمار ہوتی ہے ملک پاکستان کے بعد آزاد ہونے والی کئی ریاستیں اسی طریقہ کار سے آج پوری دنیا میں اپنا آپ منوا چکی ہیں۔

وطن عزیز جو کہ دنیا کے نقشہ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے مگر اب اسے اسلامی لکھتے ہوئے شرم آتی ہے اور جمہوریت ایک لطیفہ سا لگتا ہے ایک مخصوص طبقہ جو اس ریاست کے وجود میں آنے سے آج تک صاحب اقتدار ہے عوام میں اشرافیہ کہلانے والا یہ طبقہ اسلامی علوم سے اتنا ہی دور ہے جتنی عیش و عشرت کی زندگی غریب کی پہنچ سے دور اور جمہوریت ان کے نزدیک بلا شرکت غیر انہیں کا اقتدار میں رہنا ہی ہے چند مخصوص خاندان جن میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی اور اب وہ اسے اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہیں یہی طبقہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی شکل میں ہر بار اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اقتدار میں آنے کے بعد پھر یہ عوام تو کیا عوامی لبادے میں بھی نظر نہیں آتے انتخاب جیت جانے کے بعد یہ ٹولہ اپنے خوشامدی حواریوں سمیت عوام کی پہنچ سے ہی ایسے دور ہوجاتا ہے جیسے دوا پہ ہدایت درج ہو کہ عوام کی پہنچ سے دور رکھیں میرے علاقہ سے مسلم لیگ نواز شریف کے ایک نامور سیاست دان میاں محمد یٰسین وٹو سدا بہار سیاست دان رہے وزارت کا مزہ بھی چکھا موصوف کا ایک واقعہ بہت ہی مشہور ہوا انتخابات کا موسم تھا شاید 1985 کے غیر جماعتی انتخابات ہی تھے میاں صاحب ووٹ مانگنے کے لیے پورے لائو لشکر کے ساتھ گائوں گائوں گھوم رہے تھے۔

ایک گائوں میں فوتگی کی چٹائی بچھی تھی میاں صاحب بھی افسوس کرنے فاتحہ خوانی کے لیے ٹھہر گئے فاتحہ پڑھی گئی تو ایک شخص نے کہا کہ میاں صاحب ایک بار پھر فاتحہ پڑھنا اسی طرح تین چار بار فاتحہ پڑھنے کے بعد میاں صاحب نے پوچھ ہی لیا کہ کتنے بندے فوت ہوئے ہیں تو فاتحہ کا بار بار کہنے والے ووٹر نے جواب دیا کہ میاں جی بندہ تو ایک ہی فوت ہوا ہے مگر آپ نے چونکہ پانچ سال بعد آنا ہوتا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ اگلے پانچ سال میں مرنے والوں کے لیے بھی جناب فاتحہ پڑھ کر ہی جائیں ہمارے عوامی نمائندوں کا حقیقت میں یہی حال ہے عوامی مسائل سے نا آشنا ہماری سب سے بڑی بد بختی یہی ہے کہ ہم ستر سال میں بھی اتنے بالغ نظر نہیں ہوئے کہ ہم اپنے مسائل اور حقوق کے حصول کے لیے اس طبقہ کو کھل کر کہہ بھی سکیں یا اپنا رائے دہی کا حق استعمال کرتے وقت اتنا شعور اپنے اندر پیدا کرلیں کہ ستر سال سے جوتے مارنے والے حکمرانوں کو مسترد کر دیں اگر عوام اپنا یہ حق تمام مصلحتوں سے آزاد ہوکر اور بلا خوف صحیح استعمال کریں تو یہ ٹولہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے آئوٹ ہوسکتا ہے مگر ہم آزاد ہوکر بھی آج تک غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں اسلام کی روح سے دور ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنے حقوق کا بھی علم نہیں اللہ اور اللہ کے رسول کے وضع فرمائے ہوئے قوانین میں تو اقتدار ایک ایسی خدمت ہے جسے ہر بندہ مومن قبول کرنے کی جرات نہیں کرتا اسلامی طرز حکومت میں فاتح مکہ عظیم جرنیل انسانیت کے محسن جناب محمد رسول اللہ ۖ نے دلوں پر ایسے راج کیا کہ دشمن بھی آپکو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے آج ہمارے سیاست دان اس لفظ کے لاگو ہونے سے نا اہل قرار پا رہے ہیں۔

بدر کے مقام پر تین سو تیرہ کی تعداد کے ساتھ ایک ہزارسے زائد تعداد میں دشمن کے لشکر کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جانے والے صحابہ کرام کسی بھی سیاسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے وجہ یہ ہی تھی کہ ان کے پیش نظر آپ ۖ کی وہ سیرت تھی جس میں قریش مکہ دین کے بدلے اقتدار دینے کو تیار تھے مگر آقا کریم ۖ نے اقتدار کو ٹھوکر مارتے ہوئے اللہ کے دین کی دعوت کو نہ چھوڑا آج حصول اقتدار کے لیے ہمارے نام نہاد ملاں ہندوئوں کے پاس جاکر انکے بتوں کے آگے پرنام کررہے ہیں کیونکہ انکے نزدیک اقتدار خدمت کے بجائے عیش و عشرت کا نام ہے پاکستان میں فی زمانہ سیاست بھی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں ایک بار پیسہ لگانے سے کئی سو گنا ذیادہ کمائی کرنا ہی اصل مقصد رہ گیا اب تو شاید پاکستانی عوام کو یہ بھی یاد نہ رہا ہو کہ ان کے ووٹ سے اسمبلیوں میں بیٹھنے والے کس کام کے لیے جاتے ہیں کسی بھی ریاست کی کامیابی میں تین ستون اہم ہوتے ہیں عدلیہ ،مقننہ اور انتظامیہ یہاں الا ماشا اللہ تینوں کی وہ حالت ہو چکی ہے کہ بیان کرتے ہوئی بھی شرم آتی ہے۔

پاکستان کے ایک چیف جسٹس نے چینی کے بھائو پر ایکشن لے لیا تھا مگر اسی کی مدت ملازمت میں کئی حوا زادیوں نے اپنی عزت لٹنے پر انصاف نہ ملنے سے خود سوزی کرلی صاحب نے کوئی نوٹس نہ لیا مقننہ کہلوانے والے اسمبلی ممبران قانون سازی کرنے کے بجائے اپنے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے ایسے منصوبے بناتے ہیں جن میں انکا منافع ذیادہ ہو جسکی مثال میٹرو ٹرین میٹرو بس موٹر ویز موجود ہیں کسی بھی اسمبلی نے کوئی ایسا قانون نہ بنایا جس سے عوام کو دوقت کی روٹی کے لیے اپنے بچے نہ بیچنے پڑیں کوئی ایسا قانون نہ بنا جس کے ڈر سے غنڈہ گرد عناصر غریب کا استحصال نہ کرین جس سے کوئی مزدور کی اجرت نہ دبائے جس سے کوئی جج کی بیوی کسی غریب کی ننھی پری کو کام میں غلطی پر تشدد کا نشانہ نہ بنائے کوئی ایم پی اے کا بیٹا کسی غریب کو گاڑی سے نہ کچلے رہ گئی انتظامیہ تو وہ قانون کی پابند تبھی ہوگی جب قانون موجود ہوگا ورنہ اسی طرح ایک ایک وزیر کے سو سو مشیر اور انکی سیکورٹی کے علاوہ انتظامیہ کرے بھی کیا ابھی انتخابات کا موسم ہے سیاسی ڈیرے پھر سے آباد ہیں ائیر کنڈیشنڈ بنگلوں میں رہنے والے ہمارے حکمران طبقہ نے ڈیرے سجا کر عوام سے بغل گیر ہونا شروع کر دیا ہے۔

علاقہ میں ہر فوتگی پر جارہے ہیں اپنے ڈیروں میں عید ملن پارٹیاں بھی دے رہے ہیں لسی پانی تو ہر آنے والے کو مل رہا ہے مگر اس آئینہ کے دوسری طرف کیا ہے اگلے پانچ سال پھر ہم پر حکومت قارئین کرام ووٹ ہی آپ کے پاس وہ ہتھیار ہے جسکے استعمال سے ہم اپنے اوپر مسلط اس طبقہ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اس کے استعمال کے وقت اچھے سے بہتر اور بہتر سے بہترین کا انتخاب کیجیے ورنہ کل سوائے پچھتاوے کے ہمارے ہاتھ میں کچھ نہ ہوگا اور اس ملک کی بربادی میں ہمارا بھی برابر حصہ ہوگا اللہ کریم وطن عزیز کو وطن دوست اور اسلام کی سمجھ بوجھ رکھنے والی قیادت عطا فرمائے آمین والسلام

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی