کے الیکٹرک کی اوور بلنگ کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا

K-Electric

K-Electric

تحریر : میر افسرامان
جماعت اسلامی کراچی نے کے الیکٹرک کی عوام کے بجلی کے بلوں میں اوور بلنگ لوڈ شیڈنگ کے خلاف نرسری پر دھرنا دینے کا پروگرام کافی دنوں پہلے سے طے کیا ہواتھا۔اپنے پروگرام پر عمل کرنے کے لیے جماعت اسلامی کراچی کے مرکز نیشنل کالج کے نزدیک ادارہ نور حق میں کارکن اکٹھے ہوئے ۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیرانجینئرحافظ نعیم الرحمان صاحب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے میڈیا کے سوال پر کہ آپ انتظامیہ سے مزاکرات کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے سے کوئی رابطہ کرے تو کسی کے ساتھ مزاکرات کریں۔ ایسے میں ہم ضرور دھرنا دیں گے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ان کی مرکزی لیڈر شپ کے اور ن لیگ کے مفادات کے الیکٹرک سے وابسطہ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت موجودہ انتظامیہ سے پہلے ک الیکٹرک سے وابسطہ رہی ہیں۔ اُس نے اپنے دور میں کراچی میں نصب شدہ کھمبوں پر لگے کاپر کی تاروں کو اُتار کر اس کے بدلے سلور کی تاریں لگا دیں اور کاپر تاروں کو فروخت کر کے اربوں روپے کما لیے۔اس بہانے سے کہ پرانے میٹر بوسیدہ ہو گئے ہیں اس لیے انہیں نئے بجلی کے میٹروں سے تبدیل کر دیا۔ یہ میٹر بہت ہی زیادہ تیز چلتے ہیں اور عوام کے بجلی کے بلوں میں پچاس فی صد سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس پر بھی کے الیکٹرک کا دل نہیں بھرا اور عوام کے کے بجلی کے بلوں میں اوور یونٹ درج کر کے بلوں کی قیمت بے انتہا بڑھا دی۔ اس کے ساتھ غیر اعلانیہ لوڈ شیدنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ کراچی کی نمائیندہ ایم کیو ایم نے بھی نج کاری کے موقعہ پر کے الیکٹرک سے اپنا حصہ وصول کیا۔ اہم پوسٹوں پر اپنے بندے لگوائے۔

جب عوام کے الیکٹرک کے بلنگ ڈیپارٹمنٹ میں بل درست کروانے جاتے ہیں تو ان کے خلاف غنڈا گردی کی جاتی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی نے اس سے پہلے بھی ک الیکٹرک کے ہیڈ آفس کے سامنے دھرنا دیا تھا مگر ک الیکٹرک کا کراچی کے عوام کے ساتھ ظلم کا رویہ نہیں بدلہ۔ جماعت اسلامی نے ک الیکٹرک کے مظالم کے خلاف عدلیہ سے بھی رجوع کیا ہے۔ طے شدہ پروگرام کے تحت بعد نماز جمعہ جب نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی اپنی مرکز ادارہ نور حق سے کارکنوںکے ساتھ باہرنکلے تو پہلے سے موجود بھاری تعداد میں پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے لیے جیل سے وین بھی ساتھ لائی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی ن لیگ اور کے الیکٹرک نے ایک دن پہلے ہی گرفتاری کا یہ پروگرام طے کیا ہوا تھا جس پر عمل کیا گیا۔پو لیس نے جمعہ کے بعد ادارہ نور حق کے چاروں طرف پولیس موبائلیں اور پانی کے ٹینکر کھڑے کر دیے کسی کو باہر نہیں آنے دیا۔ جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کو گرفتار لر لیا۔ جس میںجماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اسداللہ بھٹو ایڈوکیٹ، اُسامہ رضی، اسحاق خان ،محمد اسلام، یونس بارائی اور زاہد عسکری شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ تقریباً چالیس کار کنوں کو بھی گرفتارکر لیا۔ ان کو رات گئے رہا کر دیا گیا۔ ان کی باہر کھڑی گاڑیوں کے ٹائروں سے ہوا نکال دی۔ فرعونیت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے، ان حضرات کو پروگرام کے تحت نرسری پر دھرنے کے مقام تک نہ جانے دیا ۔ نرسری پر قائم احتجاجی کیمپ پولیس نے اُکھاڑ کر خودٹریفک معطل کی۔ کارکنوں پر تشدد کر کے گرفتار کر لیا۔ جس شہر میں غم و غصہ کی لہردورڈ گئی۔ کارکن نعرے لگا تے رہے ۔ک الیکٹرک کو سدھرنا ہو گا۔دھرنا ہو گا دھرنا ہو گا۔ کراچی کے عوام نے کے الیکٹرک کے خلاف دھرنے سے خوشی کا اظہار کیا۔ جو کارکن کسی نہ کسی طریقے سے نرسری دھرنے کے مقام پہنچ گئے ،ان کے ساتھ پولیس نے تشدد کا رویہ ا ختیار کیا اور ان کے جمہوری حق سے روکا۔ کارکنوں پر سیکڑوں آنسو کیس کے شیل پھینکے جس فضا زہر آلود ہو گئی۔ کارکنوں کو پیچھے دکھیلنے کے لیے لاٹھی چارچ کیا۔ اور کارکنوں پر پتھرپھینکے۔ کارکنوں نے چلے ہوئے آنسو گیس کے شیل اُٹھا کر واپس پولیس کی طرف پھینکے۔ سامنے موجوود رینجرز کی چوکی اور پولیس کی طرف سے کارکنوں پر فائرنگ کی گئی۔فائرنگ سے نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد اسلام سمیت چار افراد زخمی ہوئے ، ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ شارع فیصل میدان جنگ بن گیا ہے۔ راقم پر بھی لاٹھی چارج کیا گیا ۔ موٹر سائیکل پر لاٹھیاں پرسا کر اسے نقصان پہنچایا گیا۔

راقم کو جماعت اسلامی کی ریلیاں، دھرنے اور احتجاج کے مشاہدے کا تقریاً پچاس سال کا تجربہ ہے۔ کراچی میں ایمپرس ماریکٹ ، ایم اے جناح روڈ،پریس کلب، اسلام آباد کے مشہورو معروف دھرنے اور جگہ جگہ جماعت کے احتجاج دیکھے ہیں۔ ہمیشہ روڈ کے ایک طرف ٹریفک چل رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف کارکن مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ صدر سے ریلی گزر رہی ہوتی ہے ۔نہ کسی ٹھیلے والے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے نہ ہی صدر کے دوکاندار اپنی دکانوں کے شٹر تک گراتے ہیں۔حسن ِ اتفاق کہ راولپنڈی والے مظاہرے کے دنوں میں ہمارا قیام اسلام آباد میں تھا۔ جب لیاقت باغ راولپنڈی جہاں کے سامنے جماعت اسلامی کے پر امن کارکن مظاہرے کے لیے مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کی لیڈر شپ میں سڑک پر جمع ہوئے تو راولپنڈی کی پولیس نے کارکنوں کے ساتھ ایسی جنگ شروع کر دی جیسے وہ دشمن کی فوج ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی کے کئی کارکن شہیدہوئے تھے۔ جس کی رپورٹ پیپلز پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ کے خلاف درج کرائی گئی تھی۔ اسلام آباد آپارہ مارکیٹ میں بھی پولیس اور کارکنوں کے درمیان مقابلہ جاری رہا۔ پھر ایک وقت آیا کہ پولیس آنسو گیس کے وہ شیل چلائے جو جنگل میں جانوروں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ فائرنگ اورپتھرائو ہو تا رہا۔ کارکن ڈٹے رہے اور بلآخر پویس پیچھے ہٹ گئی اور جماعت اسلامی کے کارکن اپنے طے شدہ ہدف پاکستان کی پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ گئے اور وہاں پہنچنے پر کسی تکبر کے مظاہرے کے بجائے دو رکعت نفل ادا کیے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ یہ ساری داستان سنانے کا مقصد پولیس اور پیپلز پارٹی کی سندھ کی حکومت کو باور کرانا ہے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رینجرز کو یہ احکامات د یتی ہے کہ فوراً اور ہر حالت میں کارکنوں کومنتشر کیا جائے اور سب کو گرفتار کر لیا جائے۔

اے کاش کہ ان کو اپنی مرکزی لیڈر شپ کے وہ اسلام آباد والے دن یاد ہوتے جب جماعت اسلامی کے جمہوری تربیت شدہ نظریاتی کارکن ان کی کھڑی کی ہوئی فرعونیت صفت رکاوٹیں عبور کر سکتی ہیں۔ کرپشن سے لدھی ہوئی سندھ حکومت جماعت اسلامی کے کارکنوں کا تشدد سے کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ نعیم لرحمان نے اس زیادتی کے خلاف ایف آئی درج کروانے کا کہا ہے۔ ہفتے کے روز کراچی پچاس جگہوں پر احتجاجی مظاہرے کی کال دی ہے۔ جس پر عمل کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے کارکنوں نے پچاس سے زائد جگہوں پر ک الیکٹرک کے زہادتی کے خلاف مظاہرے کیے جن میں مرکزی مظاہرہ نمائش چورنگی پر جماعت اسلامی سندھ کے امیر معراج الہدایٰ صدیقی صاحب نے کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کے الیکٹرک کرپشن کا دھرم شالہ ہے جس میں کرپشن کے بڑے بڑے پجاری موجود ہیں۔اسی دوران جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنر ل سیکرٹیری لیاقت بلوچ صاحب کراچی تشریف لائے اور کراچی کی مرکزی قیادت کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی ۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہمارے پرامن احتجاج پر شب خون مارا گیا۔ذمے داروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ کے الیکٹرک اوور بلنگ اور بھتہ خوری بند کرے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے سات اپریل کو کے الیکٹرک کے ہیڈ آفس پر عظیم المشان دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگر جمعہ کے دن کارکنوں کے ساتھ کے الیکٹرک اور پولیس گردی کے واقعہ کی ایف آئی درج نہیں کی گئی تو عدالت میں پٹیشن دائر کریں گے اور کراچی کے عوام کو کے الیکٹرک کے مظالم سے چھڑوا کر ہی دم لیں گے۔ انشاء اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسرامان
کنوینرکالمسٹ کونسل آف پاکستان