بجلی مہنگی پھر بھی خسارہ، آخر کیوں

Electricity

Electricity

لاہور (جیوڈیسک) بجلی کی 4 تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہوں کو 2 سو ارب روپے کے نقصان پر ہٹایا گیا ہے مگر یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے اس کے لئے ہمیں ما ضی میں جانا ہو گا 1970 کی دہائی میں یہ با ت شروع ہوگئی تھی کہ یہ ملک ایشیا کا ٹائیگر بنے گا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ملک میں بجلی کی قیمت بہت کم تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ ہمارے کارخانے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کے دیگر ممالک کو مات دے سکیں گے اس میں مبالغہ نہیں تھا بلکہ ایسا ہو سکتا تھا کیونکہ ایوب خان کے دور حکومت میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 10 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو اس وقت دنیا کے کسی ملک میں نہیں تھی یہ بات پاکستان کے دشمنوں کو گوارا نہ تھی انہوں نے اس ترقی کو روکنے کیلئے منصوبہ بنایا کہ پاکستان کو وہ کام نہیں کرنے دینگے جس سے خوشحالی آئے اور یہ عظیم ملک بن سکے۔

پہلے اقدام کے طور پر انہوں نے کالاباغ ڈیم کے خلاف مہم چلائی ان کے پاکستان میں جو مہرے تھے مجھے بے حد افسوس ہے کہ ایسے لوگ پاکستان میں کیوں تھے جو بھارت کے فائدے کی بات کررہے تھے ، 1995 میں کالا باغ ڈیم بنایا جانا تھا اور 2010 میں بھاشا ڈیم ۔ ایسے میں بجلی وافر دستیاب ہو تی اوراس کی قیمت بھی بہت کم ہوتی ، آج انرجی مکس ہے اس میں ہائیڈل، تیل اور گیس کے بجلی منصوبے ہیں پانی سے بجلی بنانے پر ڈیڑھ روپے لاگت آتی ہے لیکن جب کالا باغ ڈیم نہیں بنایا گیا تو اس سے بجلی کی کمی واقع ہوئی ، فرنس آئل سے بجلی بنانے پر 18 سے 25 روپے فی یونٹ لاگت آنا شروع ہوگئی ۔ بجلی بنانے کیلئے 196 ارب روپے کے اضافی اخراجات ہوئے جو عوام کو برداشت کرنا پڑے ،ہمارے حکمرانوں کے ملک دشمنی پر مبنی اقدامات کی قیمت عوام کو دینا پڑ رہی ہے یہ خود تو سرکاری گھروں میں رہتے ہیں ان کو پیسے نہیں دینے پڑتے۔

عام آدمی کے لئے یہ بہت بڑاخرچ ہے وہ برداشت نہیں کرسکتا ۔مجھے یاد ہے کہ میرے گائوں میں ایک آدمی آیا تھا اور اس نے کہا تھا مجھے تو 20 یا 25 روپے بل آتا تھا اب 2سو روپے آیا ہے میں یہ کہاں سے ادا کروں گا؟اب تو بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہے اور لوگ بھاری بل دینے پر مجبور ہیں ،کچھ برداشت نہیں کرسکتے اورپھر بجلی چوری ہوتی ہے ،بجلی چوری میں فیکٹری مالکان،مالدار،دکاندار اور عام آدمی بھی شامل ہیں ، ہر ایک طبقے کے لوگ بجلی چوری کررہے ہیں اور اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں، کارخانوں کے مالک کا بھی نقصان ہورہا ہے ، بجلی تو بنالی گئی لیکن بہت مہنگی ہے اس طرح کم قیمت بجلی کا جو فائدہ پاکستان کے لوگوں کو ہو نا تھا نہیں ہو ا ،اب بجلی اتنی مہنگی ہو نے کے باوجو د دو سو ارب روپے کا نقصان بر داشت کر نا پڑرہاہے میں جب واپڈا کا چیئرمین تھا تو ہمیشہ کہتا تھا بجلی جتنی مہنگی ہو گی چوری بھی اتنی زیادہ ہو گی لیکن اس زمانے میں ہم 10 پیسے فی یونٹ بیچتے تھے کیونکہ اس وقت بجلی صرف پانی سے پیدا کی جارہی تھی ،منگلا، وارسک اور تربیلا ڈیم تھے غازی بروتھا نہیں بنا تھا ہم نے سنہری موقع گنوا دیا آج بھی جو یہ سوچتا ہے کہ کالا باغ ڈیم نہ بنے وہ پاکستان کے خلاف جرم کر رہا ہے ، کالا باغ ڈیم نہ بننے کا جو نقصان پاکستان کے عوام نے اٹھایا وہ ناقابل معافی ہے۔