قوتِ برداشت کی کمی

Endurance

Endurance

تحریر : چوہدری غلام غوث
بابا جی پڑھے لکھے دانشور اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جہاندیدہ شخص تھے بابا جی نے اپنے نوجوان پوتے کو بلایا پیار سے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہنے لگے تجھے پتہ ہے کہ میرے والد اور میرے دادا دونوں ہندوستان میں ذیلدار اور گاؤں کے نمبردار تھے تحصیل بٹالہ جہاں کے زرعی آلات مشہور تھے اس تحصیل کے گرد و نواح کے دیہاتوں میں وہ پنچائتوں کے ذریعے سے قتل تک کے فیصلے کروا دیتے تھے اللہ نے اُن کو فہم و فراست کی عظیم نعمت سے نواز رکھا تھا۔ ہمارے خاندان کا ایک خاص رکھ رکھاؤ اور تشخص تھا جو ہم وراثت کی طرح ہندوستان سے سنبھال کر ساتھ لے کر آئے تھے مگر تو نے اُس سارے تشخص کا چہرہ مسخ کر دیا اور یہ سب تیری عدم برداشت کی وجہ سے ہوا ہے تیری کسی کو جذباتی ہو کر دی گئی ایک گالی نے ہمیں بیسیوں گالیاں نکلوائی ہیں اور میں اُس دن سے سوچ رہا ہوں کہ اب یہ ذیلداری اور فہم و فراست ہمارے خاندان میں چند دن کی مہمان ہے۔ سنو! ہم نے گذشتہ 70 سالوں کے دوران بہت سی قیمتی چیزیں گنوا دی ہیں اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ برداشت کی کمی کا ہے۔

ہم سب میں قوتِ برداشت، دوسروں کی بات کو ماننا، اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کرنا اور غصّے کو پی جانا جیسے اوصاف ہی ختم ہو گئے ہیں غصّے نے ہمیں جلا کر آگ بگولا بنانے کی روش اختیار کر لی ہے اور پوری قوم آگ کی بھٹی بنتی جا رہی ہے۔ دیکھو بیٹا! ایک دانشور کا قول ہے ” کہ میں آپ کی رائے سے اختلاف تو کر سکتا ہوں مگر آپ کے رائے دینے کے حق کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں” دو یا اس سے زیادہ لوگوں کے درمیان اختلافِ رائے پیدا ہونا ہی فطری عمل ہے جب کہ اسے برداشت کر لینا اس فطرت کا اصل حسن ہے۔ برداشت ہوتی کیا ہے میں تاریخ سے آپ کو چند مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ بیٹا! آپ جانتے ہو صدر ایوب خاں پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے روزانہ دو پیکٹ سگریٹ پیتے جو کہ اُن کا بٹلر اُن کو ٹرے میں رکھ کر بیڈ روم میں دیتا وہ اپنی صبح کا آغاز سگریٹ نوشی سے کرتے۔ ایک دفعہ مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے کہ اُن کا بنگالی بٹلر اُن کے بیڈ روم میں سگریٹ رکھنا بھول گیا آتے ہی جنرل صاحب نے آسمان سر پر اُٹھا لیا گالیاں دینا شروع کر دیں اس دوران بٹلر سگریٹ لے آیا ایوب خاں جب گالیاں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے مخاطب ہو کر اُن سے کہا کہ جس فوج کے کمانڈر کی برداشت کا یہ حال ہو مجھے اُس فوج کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔

بٹلر کی بات ایوب خاں کو گولی بن کر لگی اور اُنہوں نے اُسی وقت سگریٹ نوشی ترک کر دی اور باقی ماندہ زندگی سگریٹ کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ میرے بیٹے رستم زماں گاماں پہلوان کی طرح کا دوسرا پہلوان ہندوستان میں کسی ماں نے پید ا نہیں کیا ایک مرتبہ گاماں پہلوان کے سر میں ایک کمزور دوکاندار نے وزن کرنے والا باٹ مار دیا خون کا فوارہ پھوٹ پڑا گامے نے سر پر پگڑی باندھی اور خاموشی سے گھر لوٹ گیا لوگوں نے کہاپہلوان جی آپ سے اتنے کمزور ردِ عمل کی ہر گز توقع نہیں تھی اگر آپ اُس دوکاندار کو تھپڑ رسید کر دیتے تو اُس کی جان نکل جاتی گامے نے جواب دیا مجھے میری طاقت نے نہیں میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اُس وقت تک رستمِ زماں رہوں گا جب تک میری برداشت میرا ساتھ دیتی رہے گی قوتِ برداشت میں چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے ہم عصر تمام لیڈروں سے آگے تھے وہ 75 سال کی عمر میں سردیوں کی رات میں دریائے شنگھائی میں سوئمنگ کرتے تھے اور اس وقت پانی کا درجہ حرارت منفی میں ہوتا تھا وہ انگریزی زبان پر مکمل دسترس رکھتے تھے مگر پوری زندگی انگریزی کا ایک لفظ تک منہ سے نہ نکالا اُن کی قوتِ برداشت کا اندازہ کیجئے اُن کو لطیفہ انگریزی میں سنایا جاتا تو پورا سمجھ جاتے مگر بالکل نہ ہنستے جب مترجم اُنہیں چینی میں بتاتا تو مزاح کی حس سے مکمل لطف اندوز ہوتے۔

Anger

Anger

میرے بیٹے آپ نے تاریخ کی کتابوں میں مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کا نام تو پڑھا ہو گا اُس کا واقعہ بیان کرتا ہوں اُس کا قول تھا کہ میں نے زندگی میں اڑھائی کامیابیاں حاصل کی ہیں میری پہلی کامیابی ایک جنگل میں 20 فٹ کے اژدھے سے لڑائی میں کامیابی تھی جس نے مجھے زبردست طریقے سے جکڑ لیا تھا اور مجھے اپنی جان بخشی کے لیے مسلسل 12 گھنٹے لڑنا پڑا تھا میری دوسری کامیابی خارش تھی اور یہ مرض مجھے اتنی شدت سے لاحق تھا کہ میں کپڑے نہیں پہن سکتا تھا جب یہ خبر میرے دُشمن شبانی خان تک پہنچی تو وہ میری اس کمزوری کے پیشِ نظر تیمار داری کے لیے آ گیا اور اُس کے سامنے میرا ننگے جانا میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا میں نے شاہی لباس زیبِ تن کیا اور سج دھج کر شبانی خان کے سامنے بیٹھ گیا اور میں آدھا دن شبانی خان کے سامنے بیٹھا رہا مگر شدید خارش کے باوجود ہاتھ تک نہ ہلایا بابر ،ان دونوں واقعات کو اپنی دو کامیاباں اور آدھی دنیا کی فتح کو آدھی کامیابی قرار دیتا تھا۔

حضرت نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ کے والد محترم انتقال کر گئے اُن کی وفات کے اگلے روز ایک شخص آپ کے دروازے پر آیا ، دستک دی آپ باہر تشریف لائے تو اُس شخص نے کہا کہ میں آپ کی بیوہ والدہ سے نکاح کا خواہش مند ہوں آپ نے اُس کی بات سُنی اور تحمل سے فرمایا میری ماں عاقل و بالغ خاتون ہیں میں اُن سے مشاورت کے بعد آپ کو مطلع کر دوں گا وہ شخص واپس لوٹ گیا اگلی صبح کوفہ کے بازاروں میں اُس کے فوت ہونے کی منادی ہو رہی تھی تو آپ نے سن کر فرمایا میری برداشت اس شخص کے لیے اجل کا پیغام بن گئی میرے بیٹے یاد رکھو! سیاستدان ہوں، لیڈرز ہوں، مذہبی پیشوا ہوں یا بادشاہ ہوںیا عام انسان ہوں ان سب کا اصل حسن ان کی قوتِ برداشت ہوتا ہے دنیا میں اُن قوموں نے ترقی کی ہے جن میں یکسوئی اور قوتِ برداشت بدرجہ اتم موجود تھی مگر بدقسمتی یہ ہے کہ میرے ملک کے معاشرے میں قوتِ برداشت کی شدت سے کمی آتی جا رہی ہے عدم برداشت کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ میرے ملک میں اکثر قتل ، گھور کر دیکھنے، گالی دینے، طنز کرنے، فحش اشارہ کرنے اور جعلی غیرت مندی کا مظاہرہ کرنے سے ہوتے ہیں میرے ملک کے سیاستدانوں کی قوتِ برداشت کا اندازہ آپ اُن کے بیانات اور ٹاک شوز میں کی جانے والی گفتگو سے بخوبی لگا سکتے ہیں جبکہ ہماری قوم کی برداشت کا لیول دیکھنا ہو تو ٹریفک کا سگنل توڑنے اور واجبات کی ادائیگی یا کوئی فارم جمع کروانے کے لیے لگی لائنوں کو توڑنے سے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے اندر برداشت جیسا اعلیٰ وصف پیدا کر سکتے ہیں؟اس کا جواب ہاں میں ہے اور یہ جواب ہر مسلمان کو اپنے رسول حضرت محمدۖ کی سیرتِ طیبہ سے ملے گا بدقسمتی سے جس کا ہم مطالعہ ہی نہیں کرتے۔ ایک بار ایک جانثار صحابی نے رسولِ اکرمۖ سے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے زندگی کو خوبصورت اور پُرسکون بنانے کا کوئی نسحہ بتا دیں۔ فرمایا ”غصہ کرنا چھوڑ دو” اور قوتِ برداشت پیدا کر لو اور یہ الفاظ تین مرتبہ دُہرائے۔ فرمایا دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں اول وہ لوگ جو جلد طیش میں آ جاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں دوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں آ جاتے ہیں جبکہ سوم قسم وہ ہے جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں واپس لوٹتے ہیں آپ نے فرمایا ان میں سے بہترین لوگ دوسری قسم کے ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے لوگ ہیں۔

دنیا میں غصہ ہی دراصل 90 فیصد مسائل کی جڑ ہے اور اگر انسان اس پر قابو پا لے تو 90 فیصدمسائل سے چھٹکارا ممکن ہو سکتا ہے برداشت دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور مدافعاتی اثر پذیری رکھنے والی لازوال قوت ہے آپ اپنے اندر صرف برداشت کی قوت پیدا کر لیں تو آپ کو ایمان کے سوا کسی دوسری طاقت کی ہر گز ضرورت نہیں رہتی انسان اکثر اوقات ایک گالی برداشت کر کے سینکڑوں گالیوں سے بچ سکتا ہے اور ایک بُری نظر کو نظرانداز کر کے دُنیا بھر کی غلیظ نظروں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔میرے بیٹے غور سے سنو آج کے بعد جب کبھی بھی تمہیں غصہ آئے تو فوراً اپنے ذہن کے دریچے میں اللہ کے رسول کے بولے گئے یہ سنہری حروف لے آؤ ” غصہ نہ کیا کرو” مجھے اللہ کے حضور یقین ہے کہ رسول اللہ کے یہ الفاظ آپ کی قوتِ برداشت میں اضافہ کر دیں گے۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر : چوہدری غلام غوث