لاہور میں قیامت کی گھڑی

Gulshan-e-Iqbal Park Deadbody

Gulshan-e-Iqbal Park Deadbody

تحریر: فضل خالق خان
دشمنوں نے ایک بار پھر ملک عزیز کے پر امن باسیوں کو لہو رنگ کردیا ۔ اتوار کا دن جس میں ہفتے بھر کے تھکے ذہنوں کو کچھ لمحوں کا آرا م پہنچانے کیلئے شہر لاہور کے باسی تفریح کی غرض سے مشہور گلشن اقبال پارک میں موجود تھے۔کہ دس کلو(بقول بم ڈسپوزل سکواڈ) حقیقت میں اس سے دوگنے بارود سے لیس انسانیت کے دشمنوں نے اپنے ایک” جنتی” کے ہمراہ درجنوں بے گناہ انسانوں کو شہید اور سیکڑوںکو عمر بھر کی معذوری سے دوچار کر دیا۔ بچے اٹھکیلیوں میں مصروف جبکہ بڑے ایک دوسرے کو حال دل سنا کر مستقبل میں درپیش غموں سے الجھنے کی بجائے اس کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ شام کا ملگجی اندھیرا پھیلنے کو آیا تو بہت سوں نے گھروں کو جانے کی ٹھانی۔ یہی وہ وقت تھا جس کا انتخاب انسانیت کے دشمنوںنے کررکھاتھا کیونکہ ایک تو ان کے لئے خواتین اور بچے Soft ٹارگٹ تھے ، یہ وہ مخلوق تھی جو بائوجود قدرت رکھنے کے کسی کا بڑا نقصان نہیں کر سکتے۔

لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ اس وقت پارک میں موجود مرد کسی کا کیا نقصان کرسکتے تھے جو لوگ بیوی بچوں ،ماں بہنوں کے ساتھ صرف اور صرف تفریح کی غرض سے کسی پکنک پوائنٹ پر موجود ہوں وہ کسی کا کیا نقصان کرسکیں گے ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 27 مارچ کی شام گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والی خوں آشام واقعے میں آخری اطلاعات تک 71 افراد جن میں اکثریت خواتین اور بچوںکی ہے شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر انسانیت کے منہ پر طمانچہ مار گئے ہیں ، جبکہ تین سو سے زائد شدید زخمی ہیں ۔ بد ترین واقعے میں خاندانوں کے خاندان اُجڑ گئے ہیں ، لیکن ایک خاندان جس کے گیارہ افراد اس وقت پارک میں موجود تھے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ سندھ کے علاقے سانگھڑ سے لاہور میں رشتے داروںکے ہاں شادی میں شرکت کی غرض سے آئے ہوئے تھے اور اس وقت موت انہیں اس پارک میں لے آیا تھا۔

Gulshan-e-Iqbal Park Infected Faimily

Gulshan-e-Iqbal Park Infected Faimily

اس خاندان کے آٹھ افراد بھی اس خونی واقعے میں شہید جبکہ دیگر افراد لاپتہ ہیں جن کے بارے میں بھی خدشہ ہے کہ وہ شہید یا شدید زخمی ہوچکے ہیں اور کسی اسپتال میں لاوارث پڑے ہوں گے ۔واقعے پر ملک کا ہرباسی پریشانی کا شکا رہے، پنجاب حکومت نے تین روزہ جبکہ خیبر پختونخوا، سند ھ اور بلوچستان کی حکومت نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا ہے، پاکستان بار کونسل سمیت سندھ بار کونسل نے بھی سوگ کا اعلان کردیا ہے ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس سے ان درجنوں خاندانوںکی دکھوں کا مداوا ہوسکے گا۔وہ اپنے پیاروںکو بھلا سکیں گے ۔ کب تک ملک دشمن ہمیں یہ یوں وار کرتے ہوئے سسک سسک کرمارتے رہیں گے کوئی ان کے خلاف اُٹھے گا بھی یا بس یونہی باتو ں سے کام چلایا جاتا رہے گا۔

سوات کے لوگ بھی اس طرح کی بدترین حالات سے بارہا گزرے ہیں اور روز روز کی دھماکوں کے تجربے سے گزرنے کی بناء پر تجربہ کہتا ہے کہ ان تین سو افراد میں سے بھی بہت سارے افراد اگر موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے تو عمر بھر کی معذوری ان کا مقدر ٹھہر ے گی اور جو تھوڑے بہت بچ جائیں گے۔ ان کو زندگی کے سفر میں دوبارہ لانے اور یہ صدمہ بھلانے کیلئے بہت عرصہ درکار ہوگا ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق لاہور دھماکہ بلوچستان میں گرفتار”را” کے ایجنٹ کی گرفتاری کا رد عمل ہے اور انہوںنے اپنے ایجنٹ کی گرفتار ی کا درد کم کرنے کیلئے یہ کاری وار کیا ہے ، سمجھ میں نہیں آتا کہ دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس حوالے سے انٹیلی جنس اطلاعات تھیں۔ جب ہندوستان نے ایک فوری واقعے کے رد عمل میں اتنا بڑا پلان بنا کر ملک عزیز میں اتنی بڑی کارروائی کی ،تو ہمارے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم تو حالت جنگ میں ہیں پھرہم کیوں سوئے رہے۔

شہر کے بیچ میں 10 کلو بارود کون اتنی آسانی سے لے آیا ؟ کون نہتے شہریوں کو اتنی آسانی سے نشانہ بناگیا ؟ ہر دفعہ کے واقعے کے بعد مخصوص چہرے ٹی وی چینلز پر نمودار ہوکر قوم کی زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں کہ وطن دشمنوںکو کیفر کردا ر تک پہنچایا جائے گا، بس اب بہت ہوگئی مزید یہ سلسلہ نہیں چلے گا۔ لیکن ہوتا کیا ہے ؟ معاملہ وہی ڈاک کے تین پات!بے گناہ شہری منوں مٹی تلے جاکر سوجاتے ہیں ، تجزیہ نگاروں کے لئے اداروں میںاپنی نوکری پکی کرنے کے لئے چند روزہ مواد مل جاتا ہے جس پر وہ قوم کو بے وقوف بنا کر گزارہ کرلیتے ہیں۔ چارسدہ واقعے کے بعد فو ج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ واقعے کو افغانستان سے کنٹرول کیا جاتا رہا ہے اور اس کی منصوبہ بندی ”را” کے ایجنٹوں نے افغانستان میں موجود انڈین ایمبیسی میں بیٹھ کر کی تھی اور آخری وقت تک حملہ آوروں کے ساتھ افغان موبائل سموں کے ذریعے رابطہ رہا (سم والی بات کو پی ٹی اے رد کرچکی ہے)۔

Raw

Raw

اب یہ بات ہماری حلق سے نہیں اتر رہی کیونکہ ہماری تربیت تو یہ بتارہی ہے کہ دشمن کی چال چلنے سے قبل اس کا وار روکنے کے اقدامات کئے جائیں، سیکیورٹی اداروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ورلڈ رینکنگ میں نمبر ایک پر ہیں لیکن کارکردگی کیا دکھار ہی؟اس بحث کو چھوڑ کر یہ بات بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جب یہ معلوم ہوا کہ ”را” کی ایجنٹوں نے افغانستان میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرکے ہمارے ملک کے بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا، دشمنوںکا تعین ہوا توا ب ان کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟۔ کیاقوم جا کر ان سے پوچھے کہ ہمارے ہاں اتنی بڑی کارروائی کیوں کی گئی ؟۔

کیا قوم جاکر ان سے مقابلہ کرنے کے لئے کمر کس لے یا یہ کسی کی ذمہ داری ہے ۔؟سننے میں تو یہ بھی آرہا ہے کہ چارسدہ واقعے میں مقامی لوگوں نے گھروں سے بندوق اُٹھا کر قوم کے محافظوں کے آنے تک ان لوگوںکو اُلجھائے رکھا تھا ورنہ نقصان اس سے بھی بڑا ہوسکتا تھا۔ حالیہ واقعے کے بعد مزید سوئے رہنا بزدلی کی انتہا ہوگی اگر ہم اپنے اسلاف کی کچھ تاریخ رکھتے ہیں تو اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اب مزید سونے کی بجائے اپنے حصے کا فرض پورا کیا جائے۔

Dr.B.A.Khurram

Dr.B.A.Khurram

تحریر: فضل خالق خان