خواجہ سرائوں سے شادی کا فتوی اور اسلامی ریاست کے بکائو ملاں

Eunuchs

Eunuchs

تحریر: منظور احمد فریدی
تمام تعریفیں اس پاک رب کائنات کی جس نے انسان کو تخلیق فرمایا اور پھر یہ عمل مرد و عورت کے باہمی ملاپ سے سلسلہ تولد وتناسل جاری کردیا بے شک وہ رب ہر چیز پر قادراور مہربان ہے ۔کروڑ ہا بار درود اس تاجدار اور امام الانبیاء محمد مصطفی کریم ۖ پر جس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو جینے کا سلیقہ سکھاکر انسانوں کو ایک اللہ کی پہچان کے ساتھ ساتھ آپس میں برابری اور محبت کا درس دیا اور تقویٰ کو اپناکر اللہ کے نزدیک ہونے کا سبق عطا فرمایا فخر کائنات آقا کریم ۖ نے اسلام جیسا سہل پاکیزہ اور فطرت کے عین مطابق دین مکمل فرماکر انسانوں کو عطا کیا جو زندگی کے تمام مسائل اور اللہ کے بنائے ہوے قانون کے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے انکا حل بھی بتاتا ہے مملکت خداداد وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے اب اس نام سے لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اسلامی اقدار اس میں نافذ ہوئیں نہ مستقبل میں کوئی امید ہے اور اس میں چلنے والی جمہوریت محض چند خاندانوں کے لیے مختص ہے عوام کو جمہوری حقوق ملے نہ ملیں گے بہ ہر کیف آج بحث یہ نہیں بلکہ موضوع ان مفتیان کرام کا فتویٰ ہے جنہوں نے اپنے فتویٰ میں فرما دیا کہ خواجہ سرا سے نکاح جائز ہے بلکہ اسے وقت کی ضرورت قرار دیا ہے اس ضمن میں اصل حقائق سے قارئین کو آگاہی دینا لازمی خیال کیا اور آج کا یہ کالم نظر قارئین ہے۔

خواجہ سراء لفظ مخصوص ہے ایسے لوگوں کے لیے جو پیدائشی مکمل طور پر جنسی خصوصیات سے محروم ہوں یعنی مخنث ہوں ۔استاذی قبلہ سید نیاز حسین شاہ صاحب فرماتے تھے کہ تین وقت ایسے ہوتے ہیں جن میں اللہ کے عرش تھامنے والے فرشتے بھی کانپنے لگتے ہیں اور اس سے پناہ مانگتے ہیں ایک جب کوئی ناحق قتل ہو،دوسرا جب کسی پارسا عورت کو اسکا خاوند تہمت لگا کر طلاق دے دے تیسرا جب کسی کے گھر مخنث پیدا ہو ایسے لوگ گنتی کے اعتبار سے قلیل ہیں اور اپنے والدین کے لیے ہرگز بوجھ نہیں اور نہ ہی کوئی والدین دانستہ انہیں خود سے جدا کرتے ہیں آج جو گروہ کے گروہ خواجہ سرائوں کے نظر آتے ہیں ان میں سے ننانوے فی صد ایسے لوگ ہیں جو مخنث نہیں بلکہ بے راہ روی کا شکار ہو کر اس چنگل میں ایسے پھنسے کہ واپسی کا راستہ مسدود ہوگیا ان میں شوق دوستیاں اور معاشرتی ناہمواری بھی ایک وجہ ہے سب پہلے مغلیہ دور میں یہ کام شروع ہوا جب مغل شہزادوں نے مخنث مرد نوکر اپنی بیگمات کو رکھ کر دیے اور اپنی دانست میں انہیں بڑا ہی محفوظ سمجھا اور لفظ خواجہ سراء سے انہیں پکارا جانے لگا۔

Eunuchs

Eunuchs

اس دورانیہ میں ان کی کنیزوں اور دوسری مستورات نے دوپٹہ کرواکر ایک پورا غول احرام میں داخل کرلیا جو انکی جنسی تسکین کے ساتھ ساتھ مٹھی چانپی مالش کا کام بھی کرتا تھا یوں ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جو بظاہر تو خواجہ سراء تھے مگر حقیقت میں ایک شیطانی گروہ نے جنم لیا یہ لچ آج بھی معاشرہ میں قائم ہے بلکہ یورپ میں تو ان کے لیے الگ قانون بن چکا ہے جسے ہم جنس پرستوں نے بڑی تگ ودو سے منظور کروایا ہے وطن عزیز میں بھی انہی کی لابی اس پر کام کررہی تھی اور حالیہ فتویٰ انکی کامیابی لگتی ہے ان میں ایکسپریس چینل کے لاکھانی گروپ کا بھی کردار ہے ایسے لوگوں کی اسلامی معاشرہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے مدینہ منورہ میں آقا کریم ۖ کے پاس ایک ایسے شخص کو لایا گیا جو مرد تھا اور اس میں عورتوں کی طرح بنائو سنگھار کیا ہوا تھا آقا کریم ۖنے اسے مدینہ سے باہر چھوڑنے کا حکم دیا صحابہ کرام نے اسے مارنے کا پوچھا تو سرکار ۖ نے منع فرما دیا۔

آج ہمارے معاشرہ میں ایسے کئی گروہ موجود ہیں جو دانستہ طور پر اپنی جنس بظاہر تبدیل کیے پھرتے ہیں جبکہ اللہ اور اللہ کے رسول ۖنے تو مردوں کا لباس پہننے والی عورت اور عورتوں کا لباس پہننے والے مرد پر بھی لعنت فرمائی ہے ہمارے مفتی جن خواجہ سرائو ں سے نکاح کا فتویٰ دے رہے ہیں ان میں سے خلقی طور پر مخنث سے نکاح کی گنجائش بھی اسلام تو نہیں دیتا دانستہ طور پر بننے والے خواجہ سرا ء جنہوں نے خلق اللہ میں تبدیلی کی اور اپنے اعضاء تناسل کو کٹوا دیا اور لوطی فعل کے لیے عورتوں کا روپ دھار کر معاشرہ میں برائی پھیلانے کا موجب بنے وہ تو اسلام کی رو سے قابل تعزیر ہیں معاشرہ میں کھلی آنکھوں سے دیکھیں تو سینکڑوں ایسے لعنتی ملیں گے۔

جنہوں نے حسین و جمیل اور پاک دامن بیوی کو چھوڑ کر ایسے مصنوعی ہیجڑوں کے ہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور اپنی دنیا اور آخرت خراب کی ہوئی ہے میرے ذاتی مشاہدہ میں دو تین مرد ایسے بھی آئے جن کی جوان بہنیں مزدوری کر کے گھر چلا رہی تھی اور وہ خوبرو ہیجڑوں کے ساتھ ہنسی خوشی بطور خاوند جی رہے ہیں افسوس کہ اس ملک میں آج تک اسلامی قوانین بنے نہ نافذ ہوئے اور ہمارا حکمران طبقہ تو الیکشن کے دوران ریٹرننگ آفیسر کے سامنے کلمے سناتا ہوا گھبراتا ہے تو اسلام کی روح سے کتناواقف ہو گا۔

Eunuchs Right

Eunuchs Right

ضرورت اس امر کی ہے کہ خلقی خواجہ سرائوں کو ان کی حیثیت کیمطابق ان کے حقوق دیے جائیں جن میں مردانہ صفات ذیادہ ہو انہیں مردوں کے اور جن میں زنانہ صفات ذیادہ ہو انہیں عورتوں کے شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے اور تعلیم کے مطابق نوکریاں فراہم کی جائیں اور ایسے شیطانی گروہ جنہوں نے فحاشی کے اڈے کھول رکھے ہیںاور نسل نو کو بھی اس راستے پر لگانے کے علاوہ منشیات فروشی اور دوسری معاشرتی برائیوں کو پھیلانے کا موجب ہیں ان کو اسلام کے حکم کے مطابق سزا دی جائے بلکہ ایسی قانون سازی کی جائے جس سے بے روزگاری سے تنگ نوجوان اس گروہ میں شامل نہ ہو سکیں اور ہمارے مفتیان کرام اس ملک کو ہم جنس پرستوں کیلئے ہموار نہ کریں کیونکہ قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ،عورت مرد کی کھیتی ہے ،،اور کھیتی وہ ہوتی ہے جس سے فصل اُگے اور نفع بخش بھی ہو بنجر زمین اور بیابان کوکھیتی نہیں کہا جا سکتا۔

ہمارے مفتی حضرات سے اپیل ہے کہ وہ اس دین فطرت آقاکریمۖ کے عطاء کردہ دین کوبالکل مفتی نہ سمجھیں ہمارے اسلاف کی محنت اور قربانیوں کو یاد رکھیں ،ٹی وی پہ بیٹھے مذہبی سکالرز جن کی نظر سامنے بیٹھی فی میل کمپیئر کے خدوخال پہ ذیادہ اور دینی مسائل پہ کم قندیل بلوچ کے ساتھ سیلفیاں بنانے والے اور وینا ملک کو اسلامی تعلیمات وہ بھی کھلے گریبان اور دوپٹہ کے بغیر سامنے کرسی پر بیٹھ کر سبق پڑھانے والے مُلاں قوم کو معاف کر دیں آ خر میں اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ صدقہ نبی کریم ۖ کا ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والی قیادت عطا کرے اور ہمیں سچا مسلمان بنائے اور دشمنوں کے شر کے ساتھ ساتھ مفتیوں کے شر سے بھی محفوظ رکھے (آمین ثم آمین)۔

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر: منظور احمد فریدی