یورپ کی تقسیم اور دائیش

Early Human

Early Human

تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
انسانی تاریخ میں ارتقاء کے منازل کی تفریق میں صدیوں بلکہ ملینئمز کا فاصلہ ہے۔ اور اتنا ہی فرق انسانی سوچ، فکر، تہزیب و تمدن کے درمیان موجود ہے۔ برف کے زمانے اور پتھر کے زمانے کے درمیان کا فرق ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔ اسی طرح پتھر کے زمانے میں نسل انسانی نے جو پتھر کے اوزار اور ہتھیار استمال کیے ان پتھر کے اوزاروں کو دھات اور لوہے میں تبدیل ہونے میں بھی ہزاروں سال کا عرصہ لگا۔ جوں جوں وقت گزرتا رہا انسانی سوچ اور نظریات میں تبدیلی کے دوران کا وقت کم ہوتا رہا۔ اسی طرح رنگ، نسل اور مزاہب کے درمیان بھی ایک بہت بڑی خلیج حائل تھی۔ کیا 1963 سے قبل کوئ تصور کر سکتا تھا کہ کبھی امریکا میں سیاہ فام نسل سے تعلق رکھنے والا امریکا کا صدر بن سکتا ہے۔ کیا پچاس سال قبل کوئ یہ سوچ سکتا تھا کہ برطانیہ میں شرعی عدالتوں کا قیام ممکن ہو سکے گا۔

کالے اور گورے کے درمیان کے فرق کو مٹانے میں بھی صدیاں لگیں۔ اسی طرح انسان ہزاروں سال سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ اور کسی بھی شخص کو آپ پیسے دیکر خرید سکتے تھے اور اس پر اپنا حکم چلاتے تھے۔ انسانی حقوق کے احترام پر ساری دنیا 1948 میں متفق ہوئ۔ اور انسانی حقوق میں برابری کے لئے بین الاقوامی قوانین معتارف کروائے گئے۔ اس تہمید کا مقصد یہ ہے کہ جس نظریہ نے تبدیل ہونے میں ہزاروں سال لئے وہ اب محض چالیس پچاس سال میں تبدیل ہو رہا ہے اور تبدیلی کا دورانیہ صدیوں سے سُکڑ کر چند سالوں تک رہ گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم تیزی سے اپنے ماضی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یورپ کو انسانی جانوں کے بہت بڑے نقصان کے ساتھ معاشی بحران کا سامنا تھا۔ اتنی وسیع پیمانے پر تباہی پر قابو کیسے پایا جائے۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیراعظم ونسٹن چرچل نے 1946 میں متحدہ یورپ کے لئے ایک تجویز پیش کی۔

European Union

European Union

یوروپیئن یونین کی تنظیم سازی کا کام شروع ہوا مگر کچھ معاملات پر برطانیہ کے کچھ تحفظات تھے۔ 1973 میں اس نے بھی یوروپیئن یونین میں شمولیت اختیار کی ، مشترکہ طور پر یوروپیئن کونسل ، یوروپین کمیشن ، یوروپیئن پارلیمنٹ اور یوروپیئن عدالت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ تجارت ، بے روزگاری پر قابو پانا، مہاجرین کی آباد کاری، انسانی حقوق اور مشترکہ افواج جیسے اہم فیصلے کئے گئے۔ ان کے ساتھ ہی کچھ مشترکہ قوانین کا نفاز ہوا جن پر تمام رکن ممالک عمل درآمد کے پابند تھے۔ ان تمام حالات میں برطانیہ ہمیشہ ہچکچاتا رہا۔کرہ عرض کے آدھے حصے پر حکومت کرنے والے برطانوی شہری ان قوانین کو اپنی ثقافت اور اقدار میں مداخلت سمجھنے لگے۔ حالانکہ اس یونین میں رہنے کے بہت سے فائدے تھے۔ تجارتی حوالوں سے برطانیہ کو یورپ میں کھلی چھوٹ تھی۔ بین الاقوامی کمپنیوں نے برطانیہ سے اربو ڈالر کے مہایدے یوروپیئن یونین کے قوانین کے تحت کئے تھے۔ جو اب خطرے میں پڑ گئے ہیں۔

برطانیہ 39،6 بلین پونڈ سالانہ کی کھانے پینے کی اشیاء یورپ سے درآمد کرتا ہے جس میں سبزی، فروٹ، گوشت، مچھلی ، انڈے،کافی وغیرہ شامل ہیں۔ برطانیہ کے کسانوں کو ای یو کی جانب سے سُبسڈی ملتی ہے ۔ برطانیہ یورپ کو 18،8 بلین کی برآمدات کرتا ہے۔ معاشی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ یورپ سے درآمداد کی جو قیمت برطانیہ کو ممبر ملک کی حثیت سے ملتی تھیں وہ اب بڑھ جایئں گی۔ 11 لاکھ 60 ہزار کے لگ بھگ برطانوی شہری یورپ میں گلوبل سٹیزن شپ کے مزے لوٹ رہے تھے۔ جن کو یورپ میں اب ویزے درکار ہونگے۔ اسی طرح لاکھوں یوروپیئن برطانیہ میں کام کرتے ہیں جن میں سے بڑی تعداد مشرقی یورپ کے باشندوں کی ہے۔ اگر برطانیہ اپنے ملک سے پولینڈ، ہنگری، اٹلی، اسپین، یونان، سلواکیہ اور دیگر یوروپیئن ممالک کے شہریوں کو نکالتا ہے تو ان ممالک کی برطانیہ کے خلاف پہلے سے موجود خلیج میں اضافہ ہوگا۔

Referendum

Referendum

مشرق وسطی کے لاکھوں مہاجرین کے خوف سے برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا مگر پڑوس میں ہونے والے انتشار سے کیسے بچ سکے گا۔ دوسری طرف سکاٹ لینڈ بھی آج نہی تو کل علیحدہ ہونے جارہا ہے برطانیہ میں نسل پرستی، مزہبی تفریق میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اس سے معاشرے میں بے چینی، نفرت اور عدم برداشت کا عنصر بڑھے گی۔ دوسری طرف یورپ میں بھی مضید تقسیم ہو گی ۔ اگر میرے ملک نیدرلینڈ میں کل ریفرینڈم ہو تو نتیجہ برطانیہ جیسا ہی ہوگا۔ معاشی طور پر مضبوط ممالک کے شہری اب یونین سے اکتانے لگے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی علیحدہ شناخت ان کو لاکھوں تارکین وطن کی یلغار سے بچا لے گی۔ اور وہ معاشی طور پر زیادہ مضبوط ہونگے۔

میری دانست میں یورپ اور برطانیہ کے عوام اور حکومتوں کے عزائم مختلف ہیں۔ یہاں مقامی آبادیوں میں باہر سے آئے ہوئے مہاجرین کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو انتہائ خوفناک ہے۔ ان تمام پہلوؤں کے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت اصلی فتح تو دائش اور دہشتگردوں کی ہوئ ہے۔ دائیش نہی چاہتی تھی کہ ان کے لاکھوں لوگ یورپ تک پہنچیں۔ اور اگر پہنچیں تو ساتھ دائیش کو بھی لیکر پہنچے۔ اسی دائیش نے اپنی کامیاب پالیسی سے یورپ اور برطانیہ کو تقسیم کر دیا۔ اسی دائیش نے فرانس ، بیلجئم اور ترکی پر حملہ کر کے نیٹو کو چیلنج کر دیا۔ اسی طرح اقتصادی طور پر بھی یورپ اور برطانیہ کو ناقابل یقین نقصان پہنچایا۔ اگر ابھی بھی برطانیہ نے اپنے ریفرینڈم کے فیصلے کو ری وزٹ نہ کیا تو پھر خدا کی حافظ ہے۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم