یورپ پر اعتراض

Muslims Life in Europe

Muslims Life in Europe

تحریر : ممتاز ملک. پیرس
مجھے کہا گیا کہ آپ اس یورپ کی بات کر رہی ہیں جہاں یہ یہ یہ عیب ہیں … ان میں یہ یہ اور یہ خرابیاں ہیں …. بلکل میں اسی یورپ کی بات کر رہی ہوں جسکے لیئے میرا نقطۂ نظر ہے کہ جہاں لاکھوں مسلمان عزت اور حفاظت کیساتھ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں.. جہاں مسلمان سالوں گھر بیٹھے یورپی حکومتوں سے وظیفے کھاتے ہیں ..اولڈ ہاوس کا طعنہ دینے والے سن لیں کہ جہاں اکثر بہووں اور بیٹوں کے ہاتھوں زہر دیئے جانے اور ماں باپ سے اپنے بچے پلوانے اور جائیدادیں زبردستی اپنے نام پر کروانے، اور گھر کا چوکیدارہ کروانے کی بجائے ہزاروں روپے ماہانہ دیکر ان کی عمر کے لوگوں کی صحبت میں انہیں نوجوانوں کے لیئے اپنے زندگی بھر کے تجربات سے کام لینے کے لیئے مشاورت اور ان کی بہترین دیکھ بھال کے لیئے داخل کیا جاتا ہے۔

وہاں وہ قیدی نہیں ہوتے فعال رکن ہوتے ہیں جہاں ان کی مرضی بھی چلتی ہے اور خواہش بھی پوری کی جاتی ہے … اور انہیں تنہائی میں بیٹے اور بیٹی کے انتظار میں تڑپتا نہیں چھوڑا جاتا اپنی مرضی سے لڑکا لا کر ماں باپ سے شادی کا اعلان کرنے کا اعتراض کرنے والو جہاں لڑکی قرآن سے بیاہنے، اس کی کمائی کھانے، یا اس کا جبری نکاح =زنا شادی کے نام پر کرنے کو مجبور کرنے یا گھر کی جائیداد باہر نہ چلی جائے کہہ کر، باپ بھائی گھر نہیں بٹھاتے بلکہ جہاں اسے کوئی اچھا لگے اسے ماں باپ سے ملوا کر اسے اس کی پسند کے اپنے گھر بیاہ کر بھیج دیا جاتا ہے … جہاں بن بیاہی بیٹیاں گھر پر بٹھا کر انہیں گناہ پر مجبور کر کے اور پھر ان کے گناہ چھپا کر کسی کے متھے نہیں لگائے جاتے، اسی کے نام پر ڈالے جاتے ہیں، چاہے وہ اسے اپنائے یا نہ اپنائے اپنا نام اور دامن نہیں بچا سکتا کہ “جا سارا محلہ گواہی میں لاو تو مانیں گے کہ یہ معصوم سا مرد گناہگار بھی ہو سکتا ہے”۔

Woman

Woman

آپ کا یہ اخلاقی معیار آپ کو مبارک ہو جہاں اکثر گھر میں عورت ماں بنکر بھی پٹ رہی ہے. اور ماں باپ کے اللہ بخشے ہونے تک وہ ہمیں عذاب ہی لگتے ہیں کہ کیا ہر وقت بولتے ہی رہتے ہیں جان ہی نہیں چھوڑتے … بیوی بن کر بھی ہر طرح کے استحصال کا شکار ہے. ہر خدمت کے بعد بھی یہ نے تنخواہ کا مزدور اپنی دو روٹی کے لیئے ہمیں بوجھ لگتا ہے۔

بچے بچیاں زانیوں کے ہاتھ چڑھ رہے ہیں اور پھر بھی حکم ہے کہ سشششش کسی کو پتہ نہ چلے خاندان کی عزت کا سوال ہے … . کاش ہمیں ہمارے گریبان میں جھانکنا آجائے اور رہا مسلمانوں کا قتل عام تو نہ کروائیں اپنا قتل عام .. کریں ان کی ایجادات کا مقابلہ ان کے علم کا مقابلہ ان کی تہذیب کا مقابلہ .. جب اللہ بھی آپ کی مدد نہیں کر رہا تو جھانکیئے اسی قرآن پاک میں کہ جہاں وہ فرماتا ہے۔

میں ہر اس قوم کو عروج عطا کرتا ہوں کہ جو محنت کرتی ہے اور آگے بڑھنے کا عزم اور ارادہ رکھتی ہے . خدا اس قوم کی حالت کبھی نہین بدلتا جو خود محنت علم اور ہنر میں کمال حاصل نہیں کرتی. خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے جناب … جہاں بات بات پر ہم جیسے کمزور اعمال والے اپنے لیئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل نبی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے.ان سے صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ خود کو کربلا والوں کیساتھ ملانے سے پہلے ہمیں ہماری کرتوتوں کا بھی ایک بار جائزہ ضرور لینا چاہیئے۔

شاید ہمیں شرم آ جائے اور ہم ان مقدس ہستیوں کا نام لینے سے پرہیز کریں … مگر ہم سچائی کا آئینہ اس لیئے توڑ دیتے ہیں کہ یہ ہمیں ہماری مکروہ صورت دکھاتا ہے۔

آج ہم دو ارب سے زیادہ کی آبادی ہو کر تین سو تیرہ جتنا ایمان اور عمل حاصل نہ کر سکے… افسوس یہ وہی زمانہ ہے جسے سوچ کر ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھی . …….ممتاز ملک

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک. پیرس