شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی

Evening

Evening

شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی
پھول سے چہروں پہ حسرت نہیں دیکھی جاتی
ہم سے موسم کی عداوت نہیں دیکھی جاتی
اب کسی چاپ نہ آہٹ کا گماں ہوتا ہے
دل سے تنہائی کی وحشت نہیں دیکھی جاتی
جابجا رِستے ہیں ناسُور گزرگاہوں کے
ایسی غمناک مسافت نہیں دیکھی جاتی
کب انہیں دن کے اجالے سے ہے رغبت جن کی
شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی
اِک پرندہ کہ جو پابندِ قفس ہے اب تک
اس کے اڑنے کی جسارت نہیں دیکھی جاتی
آج بھی زِیست کے دوراہے پہ اکثر زریں
اِس دلِ زار کی حالت نہیں دیکھی جاتی

زریں منور