من مانیاں اور نادانیاں چھوڑ دیں

Captain Mohammad Safdar,Nawaz Sharif, Maryam Nawaz

Captain Mohammad Safdar,Nawaz Sharif, Maryam Nawaz

تحریر : رقیہ غزل
ہمارے وطن عزیز میں آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو ملکی و قومی وقار پر سوالیہ نشان چھوڑ رہے ہیں مگر نہ توحالات بدل رہے ہیں اور نہ ہی اشرافیہ اپنے اطوار بدل رہے ہیں ۔ ایسا ہی واقعہ احتساب عدالت میں شریف خاندان کے داماد اور بیٹی کی پیشی کے موقع پر پیش آیا جب پریشر بڑھا کر عدالتی کاروائی روک دی گئی اور مقدمہ ملتوی ہو گیا۔ انتہائی دھینگا مشتی کر کے سینئر پولیس افسر اور نیب پراسیکیوٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بدیں وجہ احتساب جج کو اپنے چیمبر میں پناہ لینا پڑی کہ پریشر بڑھانے کیلئے کپٹن صفدر نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے چلا کر کہا کہ تمISI سے ہو یا تمہارا تعلق MI سے ہے ؟ حکومتی وفاداری نے یہ طمانچہ کس کے منہ پر مارا اور کس کو دھمکایا ہے ؟مبصرین اور صحافیوں کے مطابق مبینہ ملزمان کیپٹن صفدر اوربی بی مریم نواز نے اپنے جانثار وکلا کے ساتھ کورٹ میں ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ وہ واقعی لوہے کہ چنے چبوائیں گے ۔سبھی جانتے ہیں کہ یہ حربہ اس لیے اختیار کیا گیا کہ فرد جرم عائد نہ ہوسکے ۔ یہ سب کچھ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی کوریج بنا اور یوں دوسری پیشی بغیر کسی سوال و جواب کے ختم ہو گئی۔

ایسے ہی نا خوشگوار واقعات سے بچنے کے لیے ہی رینجر ز کو پچھلی پیشی پر تعینات کیا گیا تھا لیکن کہنے کو اس تعیناتی کو بھی مبینہ رکھا گیا تھا جس پر تمام حکومتی وزرا نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے برملا کہا تھاکہ اقتدار کسی اور کے پاس ہے جبکہ اختیار کسی اور کے پاس ہے ۔اب بھی لیگی قیادت کا مئوقف ہے کہ پولیس نے وکلا ء کو روکا تھا حالانکہ پولیس اور رینجرز سبھی حکومت کے ماتحت ادارے ہیں یقینا سب کچھ طے شدہ تھا مگر ان غیر اخلاقی رویوں اور ہلڑ بازی کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے اور اس اسکرپٹ کا رائٹر کون ہے جو ملک و قوم کی بدنامی کو بالائے طاق رکھ کر مسلسل سول ملٹری تعلقات کو کشیدہ ظاہر کر رہا ہے ۔ایسے بہت سے سوالات ہیں جوکہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں مگر واضح ہو چکا ہے کہ چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے کہ حکمران جماعت کی من مانیاں اور نادانیاں بڑھتی جا رہی ہیں کہ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر وکلا اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی کو بی بی مریم نواز نے ایسی نوعیت میں پیش کیا کہ جیسے ان تمام واقعات کے پیچھے بھی کوئی دیگر ہے اور وہ بھی سوالیہ نشان ہے۔

آج اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اداروں کے درمیان تلخیاں اور رنجشیں ہیں لیکن عوام کو بیوقوف بنانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر روز روز کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اورسیاسی ڈرامے ملکی سالمیت اور وقار کے ضمن میں نا قابل برداشت ہو رہے ہیں ۔ایک طرف کیپٹن صفدر قادیانیوں کے بارے بیان دیتے ہیں اور دوسری طرف ن لیگی قیادت اس سے لا تعلقی کا اظہار کر لیتی ہے ۔رانا ثنا اللہ بیان داغ دیتے ہیں کہ قادیانی بھی مسلمان ہیں اور بار بار حلقہ ایک سو بیس میں کارکنان کی اغوا کی باتیں کی جاتی ہیں جبکہ شنید ہے کہ حلقہ ایک سو بیس میں جس قدر بے قاعدگی اور زوروری ہوئی ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے پھر کیوں ہر طرح سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ کوئی دوسری قوت ملکی انتشار کی ذمہ دار ہے۔

بدیں وجہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مطابق اداروں کو کمزور یا فتح کرنا کوئی کامیابی یا جمہوریت نہیں ہے۔ملک میں کوئی سیاسی حادثہ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوگی ۔ملکی ، سماجی و معاشی حالات دن بہ دن بگڑتے جا رہے ہیں ۔ معیشت کے ماہرین کے مطابق پاکستانی معیشت مسلسل گر رہی ہے کیونکہ سب سیاستدانوں کو اپنی اپنی پڑی ہے جبکہ عوام اور ملک سپرد خدا ہیں ۔اب صرف غریب ہی نہیں بلکہ امیر بھی مہنگائی کی آگ میں جلنے لگا ہے ، پانی بھی خرید کر پینامجبوری بن چکا ہے کیونکہ تقریباً ہر جگہ گٹر ملا پانی ہے جو کہ مضر صحت ہے اور اگر پی لیا جائے تو ہسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز کا غیر اخلاقی رویہ ، لا پرواہی اور من مر ضی سے مریضوں کو سہولیات فراہم کرنے کے باعث بیماری مزید بڑھ جاتی ہے، بجلی کی فراہمی کے نعرے لگتے ہیں اور لوڈ شیڈنگ موجود ہے ۔حکمران اسے ترقی گردانتے ہیں ؟یہ کیسی ترقی ہے جو اشتہارات اور ٹی وی پر حقیقتاً جیسی نظر آتی ہے ویسی نہیں ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ

تم بڑے لوگ ہو سیدھے ہی گزر جاتے ہو
ورنہ کچھ تنگ سی گلیاں بھی ہیں بازار کے ساتھ

آجکل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھی کچھ خرابیاں پیدا کی جاری ہیں تاکہ عوام پر ثابت کیا جا سکے کہ میاں صاحب کی نا اہلی کیوجہ سے ملک معاشی اور سیاسی لحاظ سے بدحال ہو رہا ہے حالانکہ حکومت تو” ن لیگ” کی ہے اور انھی دگر گوں حالات کو دیکھتے ہوئے پاک افواج نے معیشت پر اپنے” خدشات” کا اظہار کر دیا تھا کیونکہ ملکی و قومی سلامتی کے محافظ گلشن کو ویران ہوتا کیسے دیکھ سکتے ہیں ؟ ملک جوالا مکھی کے دوار پر کھڑا ہے اور اندرون خانہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے لیکن اس خدشے کو وزیر داخلہ نے ملکی ساکھ پر حملہ قرار دے دیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو تنبیہ کی کہ معیشت پر بیانات سے گریز کریں ۔اس کے بعد ترجمان پاک افواج کی طرف سے جو بیان آیا۔۔ اگر سمجھا جائے۔۔ تو بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ” احسن اقبال کے بیان پر بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا ہے جبکہ ایسی کوئی بات نہیں کی گئی تھی اور جمہوریت کو پاک افواج سے خطرہ نہیں بلکہ جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے خطرہ ہے ۔”لیکن حکومتی وزرا تو شاید حق بات نہ سننے کا مشن لیکر بیٹھے ہیں ۔جب عہدے اور وزارتیں شیرینی کی طرح بانٹی جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ہو رہا ہے کہ احسن اقبال نے فوراً ہی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی پریس کانفرنس میں کہہ دیا کہ میں نے جو کہا ہے قائم ہو ں کہ مہذب معاشروں میں کبھی ایسانہیں ہوتاکہ ایک ادارے کا ترجمان اپنی حکومت کی کار کردگی پر کوئی بیان دے اور اگر دیا ہے تو آپ کو چاہیئے کہ آدھے گلاس کو بھرا ہوا بتائیں۔

یہی تو مسئلہ ہے کہ جنھیں بھرنا تھا وہی مبینہ کرپشن کے الزام میں پیشی بھگت رہے ہیں اور تمام الزامات کو یکسر مسترد کر رہے ہیں جبکہ ورلڈ بینک کی میٹنگ میں وزیر خزانہ نہیں جا سکے اوروزیرداخلہ کو جانا پڑا تو ایسے میں جانثاران وطن کی پریشانی تو بنتی ہے۔ اس پر یہ رپورٹ کہ قومی فی کس آمدن اور قوت خرید کے لحاظ سے جو 189 کی فہرست مرتب کی گئی ہے اس میں پاکستان 137 نمبر پر ہے یعنی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے غریب کو مزید غریب بنا دیا ہے۔ ایسے میں کیا آپ نے پیداواری ڈھانچہ بدلنے کی کوشش کی ؟کیا آپ نے کشکول توڑا ؟ بس اتنا کیا کہ قومی ذرائع اور عوام کی محنت کی کمائی کو غیر پیداواری اخراجات اور منصوبوں پر ضائع کر دیا اور اپنی تجوریاں بھر لیں اور نعرے خود انحصاری اور ترقی کے لگا لگا کر عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔اشرافیہ کے اللّے تلّلوں پر جتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے کیا ایک غریب مقروض ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ نیدر لینڈ کاوزیراعظم سائیکل پر بادشاہ کو ملنے جاتا ہے اور ہمارے سابق وزیراعظم چالیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ احتساب عدالت میں پیشی بھگتنے جاتے ہیں اور اگر کوئی سوال کرتا ہے یا سمجھاتا ہے تو آنکھیں نکالی جاتی ہیں حالانکہ آج پاکستان کی معیشت جہاں کھڑی ہے وہ واقعی لمحہ فکریہ ہے لیکن پاک فوج کیطرف سے معیشت پر تبصرہ ایسے وقت میں سامنا آیا جب وزیر خزانہ کو اپنے ذرائع سے زیادہ جائیداد بنانے کے مقدمے کا سامنا ہے اور ان کی جگہ وزیر داخلہ ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے اجلاس میں موجود ہیں ایسے میں وزیرداخلہ کا جوش میں آنا بھی بنتا تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آرمی چیف کی طرف سے ملکی حالات اور معیشت پر بیان پہلی بار نہیں آیا بالفرض آیا بھی ہے تو کونسی قیامت آگئی ہے کہ ایک شخص ملک کا تین دفعہ وزیراعظم بنا ہے اور اس کے بیٹے پاکستانی شہریت ہی نہیں رکھتے جبکہ ان کی تعلیم ،بودو باش اور رہن سہن کیلئے سارا پیسہ پاکستان کے عوام کا لگا ہو اہے اور کہا جاتا ہے کہ ان پر پاکستانی قوانین لاگو ہی نہیں ہوتا ۔ اور دوسری طرف افواج پاکستان کے سپوت ہیں جو دن رات سینہ سپر ہیں اور ناموس وطن پر یونہی جان وار دیتے ہیں اور ان پر اقتدار کے لالچ کا الزام کس قدر بے معنی اور بلا جواز ہے۔

سویلین حکومت سمجھتی ہے کہ عسکری قیادت ان کے خلاف ہے جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے ا س لیے آج پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے اداروں کا متحد ہونا ضروری ہے ورنہ ” ڈومور ” کے حامی گھات لگائے بیٹھے ہیں افغانستان میں اغوا ہونے والے خاندان کی بازیابی یقینا پاک افواج کی بہت بڑی کامیابی ہے اور ضرب عضب کی مسلسل کاوشوں سے سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوچکی ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں بھی کسی حد تک کمی آگئی ہے پاکستان کی ترقی ، استحکام اور خوشحالی کیلئے پاک افواج کی قربانیاں لازوال ہیں مگر اندرونی حالات اندھیر نگری چوپٹ راجا کے مصداق ہیں کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی ،معاشی ،معاشرتی اور سیاسی بحران ، مہنگائی کا طوفان ، مذہبی انتہا پسندیاں ، سماجی رویے اوراکھاڑ پچھاڑ الغرض مفلوج نظام سب کے سب معاشرے کو جنگل بنانے پر تلے ہوئے ہیں کیونکہ سیاسی انتہائی پسندی مذہبی اور سماجی انتہاپسندی کو جنم دیتی ہے لہذا ملکی وقار اور قانون و انصاف کی عملداری قائم کرنے کیلئے ہر فرد ،طبقہ ،سیاسی جماعتوں اور ہر کسی کو چاہیے کہ من مانیاں اور نا دانیاں چھوڑ دیں وگرنہ اس دھکم پیل اور انتشار کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔

Roqiya Ghazal

Roqiya Ghazal

تحریر : رقیہ غزل