احتساب بمقابلہ اسٹیٹس

Imran Khan

Imran Khan

تحریر: شہزاد سلیم عباسی
خان صاحب فرانزک ماہرین کی تلاش کے بہانے اپنی ساسوں ماں کے ہاں سیر سپاٹے اور تاز ہ دم ہو اخوری کے لیے گئے تھے اور بچوں کی نانی کے پاس پرانی یادوں کیساتھ شہنشاہ غزل مہد ی حسن اور جگجیت سنگھ کے سروں کی تال پر تال جمائے ماضی کے” کو دھرنے “اور مستقبل کے دھرنا سازی کے لیے” اسٹیٹس کو” دوستوں کے جھرمٹ میں محوگفتگو تھے کہ اچانک چرچل ہوٹل میں موجود وزیراعظم میاں نواز شریف ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ٹرائی اینگل گٹھ جوڑ نے عمران خان کو برمنگھم میں خطاب کا خیال آیا۔خطاب میں گویا ہوئے کہ نواز شریف وزیراعظم ہونے کیوجہ سے ٹیکس ادا نہیں کرتے اسی لیے انہیں کوئی پکڑنے والا نہیں ہے۔اورجن قوموں کا نظریہ متزلز ل ہوتا ہے وہ مر جاتی ہیں اور ساتھ ہی خان صاحب نے راجن پور میں ڈاکوئوں کوشیر اور پولیس کو مظلوم قراردیا۔ عمران خان نے اپنے خطا ب میں دو مطالبات بھی جھڑ دیے ،کہاکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جائے،فرانزک ماہرین سے تفشیش کا عمل مکمل کرایا جائے، خان صاحب! چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے تشکیل کی بات تو کسی پارٹی کا وہ سربراہ کرتا ہے جسمیں سیاسی بصیرت اور دانست ہو!خان صاحب آپ کا تو ٹریک ریکارڈ ہے کہ آپ اپنی ہی کی ہوئی بات سے مکر جاتے ہیں!اپنی دی ہوئی سابقہ اسٹیٹمنٹ سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں، اسے اون کر نے سے تائب ہو جاتے ہیں۔اس سے پہلے بھی آپ نے کتنے سارے کمیشنوں کی خواہش ظاہر کی اور کتنے سارے ججز کے نام لیے ،

جب آپکی خواہش پر کمیشن بن گیا، آپکی مرضی کا جج بھی لگ گیا تو آپ نے نہ صرف اسکو ماننے سے ہی انکار کر دیا بلکہ اسے حکومت کی بی ٹیم قرار دیا۔اس لیے خان صاحب آپ یہ کمیشن وغیر ہ کی سربراہی کاراگ الاپنا چھوڑ دیں یہ آپ کے بس کی با ت نہیں!خان صاحب آپ نے دوسر امطالبہ یہ کیا کہ فرانزک ماہرین کو لایا جائے اور تحقیقات کا عمل شفافیت سے شروع کرایا جائے ۔آپکا یہ مطالبہ تو بلکل ٹھیک ہے لیکن کیا آپکا پاکستانی اداروں سے اعتماد اٹھ گیا ہے ؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی پولیس ، آئی ایس آئی، آئی بی یا ہمارے دوسرے تحقیقاتی ادارے خدا نخواستہ کچھ نہیں کر سکتے ؟آپکے خیال میں نیب اور ایف آئی اے والوں کے پاس جرم یا جرائم پکڑنے کا کوئی حل نہیں ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر پنجاب پولیس کے جوانوں کے بارے میں کیوں مشہور ہے کہ اگر وہ کسی کو پکڑنے پر آجائیںتو پھر بڑے سے بڑا مجرم کو بھی لب آزاد کرنے ہی پڑتے ہیں۔ کیا آپ ہماری سپر پاور آئی ایس آئی کو نظر انداز کر سکتے ہیں جو اپنی بہترین اور شفاف تحقیقات کے لیے دینا بھر میں اپنا نام اور پہچان رکھتی ہے ؟آپکو شاید باہر کی دنیا کا فوبیا ہو گیا ہے کہ ہر چیز میں “فرانزک ایکسپرٹ لائو” کی رٹ شروع کر دیتے ہیں!

Pakistan

Pakistan

ادھر چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے سینٹ سے خطاب میں کہا کہ ہم نے 73 کا آئین بڑی کوششوں کے بعد حاصل کیا اور ہم آئین پاکستان میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے اور ہی کسی کو جمہوریت یا آئین پاکستان کی بساط لپیٹنے کی اجازت دینگے اب تنقید پتہ نہیں کس پر کر رہے تھے بہرحال انہوں نے ایک بات بڑے پتہ کی کر دی جس سے یہ اندازہ لگانا کافی سہل ہے کہ تنقید کے نشتر کس پر برسائے جا رہے ہیں ؟ انہوں نے کہاکہ ہم نے “پریزڈنشل فارم آف گورنمنٹ “کے بہت سارے تلخ اور گمراہ کن تجربات کیے جس میں سوائے جمہوری و پارلیمانی نظام کی تباہی و بربادی کے کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آج جس دوراہے پر پاکستانی قوم کھڑی ہے یہ کبھی بھی صدراتی نظام کا متحمل نہیں ہو سکتا بلکہ جمہوری نظام کے پودے کو ہی پھیلتا پھولتا رہنا چاہیے اور “سسٹم ڈی ریلمنٹ” ایک ناسور ہے جسے ہر صورت ختم کر کے آئین کے بنیادی کیریکٹر کو بحال کرنا ہو گا۔ انہوں نے مخلص پارٹی ورکر اور سیاسی سٹنٹ کے طور پر بھٹو صاحب کا صدا بہار جملہ پھر دہرایا کہ ہمالیہ روئیگا اور اسکے آنسوئوں کے سمندر میں سب بہہ جائیگا ۔

انہوں نے اپنی پارٹی اور بالخصوص زرداری صاحب کا تحفظ جاناں کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ہم اسلام آباد کے اشرافیہ سے شدید تنگ ہیں جنہوں نے غیر ضروری طور پرعام لوگوں کو حراسان کرنے سے لیکر کراچی اور اندرون سندھ میں پیپلزپارٹی کی ساخت کو نقصان پہنچانے کی ٹھان لی ہے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صوبوں کی خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں ہے اور صوبائی انتظامی معاملات میں مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کرینگے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں کو سر تسلیم خم کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو بھی انکی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا کہتے ہیں ۔پہلے بار ایسے لگا جیسے چیئرمین سینٹ، چوہدری اعتزاز احسن کیطرح پی پی پی کی ہائی کمان اور انکی پالیسیوں سے کچھ نالاں ہیں ۔عمران خان نے پہلے پی پی پی کو مل کر چلنے کو کہا لیکن کوہِ مسائلستان کے خاص مقام پر پہنچ کر پیپلز پارٹی کے پائوں جلنے لگے ہیں کیونکہ اسے پھلانگنا پیپلزپارٹی کے میثاق مری اور نظریہ ضرورت کو گزند پہنچا سکتا ہے۔خیر عمران خان صاحب اب مختلف محازوں پر الگ نظر آرہے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی اب پی پی پی کی صورت میں ایک بڑے اپوزیشن اتحادی سے محروم ہو گئی ہے ۔

سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ عمران خان کا مستقبل غیر یقینی اور متذبذت ہے کہ وہ جس بھی ٹہنی کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ کھوٹی نکلتی ہے۔خان صاحب تو کرپشن کی بات کرنے نکلے ہیں پراپنے کھوٹے سکوںسے کو ہی نہیں سنبھال پار ہے ! انکے پلیزز انتشار کا شکار ہیں ۔ بھوکلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ اب خان صاحب اپنوں سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔پی ٹی آئی گروپنگ کا شکار ہے پوری پارٹی عمران خان کے گرد گھومتی ہے اگر عمران خان پارٹی میں ہیں تو سب اچھا ہے نہیں تو باقی لوگ تو نمبر بنانے کے چکر میں ہیں اور بعض تو خان صاحب کی کرسی لینے درپے ہیں۔جہانگیر ترین نے کچھ دن پہلے کہا ہے کہ میں کشتیاں جلا کر آیا ہوں اب پارٹی میں عمران خان کے شانہ بشانہ چلوں گا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ وہ خود کو نمبر 2 پر دیکھ رہے ہیں۔جبکہ شاہ محمود قریشی بیچارے تواس شعر کا مصداق بن کے رہ گئے ہیں کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ،نہ خد ا ہی ملا نہ وصال صنم۔

PTI

PTI

گلوبل مالیاتی نظام میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور عمران خان کو صرف ن لیگ نظر آتی ہے وہ پورے ملک کے ہر فرد کے احتساب کی بات نہیں کرتے کہ جو بھی کرپٹ ہے چاہیے وہ مسلم لیگ ن کا ہے ، پی ٹی آئی، پی پی پی ، ق لیگ، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام ف، س، جماعت اسلامی یا باقی کسی جماعت کا ہے یا کاروباری ہے ،سب کا احتساب یکساں شروع ہونا چاہیے ۔ خان صاحب ایسا نہیں کہہ سکتے کیوں کہ عوام نے انکا 3 دفعہ انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی کے” اسٹیٹس کو “کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ہے۔ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، علیم خان، نعیم خان، عمران اسماعیل، فیصل واوڈا، شہزاد وسیم وغیرہ کے احتساب سے تو پی ٹی آئی کے پاکستان کے نقشے سے ہی گم ہو جانے کا خطرہ ہے ۔عمران خان کو کرپشن کے خلاف خود کو اور اپنی پارٹی کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا لیکن وہ تو قوم سے خطاب میں بھی ذاتی رنجش نکالتے نظر آئے!عمران خان تو قوم کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بات سچ ہے کہ اگر آج قوم سے پوچھا جائے تو قوم نے پھر نواز شریف کو ہی منتخب کر نا ہے ۔

عمران خان کا مقصد تو اسٹیٹس کو مائنڈ سیٹ کو قابو کرنا تھا اسی لیے انہوں نے 2014 کے عام انتخابات کے بعد اسٹیٹس کو پارٹی کو ہی پروان چڑھایا اور اسی کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے۔ عمران خان کا اختلاف تو صرف نواز شریف ہیں باقی پاکستانی 200 سے زائد خاندان جو لیکس میں ملوث ہیں انکی پاکستان تحریک انصاف بات ہی نہیں کرتی۔ انکا ہد ف اور اختلافی نقطہ میاں نواز شریف ہیں اور بس وہ چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ہی نوازحکومت گرا کر مملکت خداداد پر راج کریں۔ خان صاحب نے کہا کہ آج قوم کے لیے بڑا نازک موڑ ہے ! اگر آپ سچ کہتے ہیں تو پھر آپ پبلک اکائونٹیبلٹی کی بات کریں اور اپنے لوگوں کو بھی احتساب کے لیے پیش کریں تو یقینا عوام آپکے ساتھ کھڑے ہونگے ۔

Shahzad Saleem Abbasi

Shahzad Saleem Abbasi

تحریر: شہزاد سلیم عباسی