غزل

آنکھوں کے خواب روح کی سوغات لے گیا
یہ کون مجھ سے رونقِ جذبات لے گیا

سہمی فضا میں کس طرح پرواز ہم کریں
لمحوں کا قہر سانس کی حرکات لے گیا

ایسے گرے کہ پائوں کی ٹھوکر بنے رہے
آہوں کا کرب روح کے نغمات لے گیا

کیسا عجیب شخص ہے بازارِ شوق میں
سکھ کے خزانے چھوڑ کر صدمات لے گیا

ہم سے فقیر لوگوں سے فکر و شعور کی
اب کے امیرِ شہر بھی خیرات لے گیا

ایسا ہے نامراد یہ غم روزگار کا
ہم سے کسی کی یاد کے دن رات لے گیا

منصف ہمارے عہد کا سورج کی نوک پر
ساحل خلوص و مہر کی برسات لے گیا

GHAZAL

GHAZAL

ساحل منیر