آنکھوں کا بخت ہو گئے اشکوں کے سلسلے

دل میں اتر گئے تیری یادوں کے سلسلے
آنکھوں کا بخت ہو گئے اشکوں کے سلسلے

اس کے کتاب چہرے پر جب بھی کبھی لکھا
اک پل بھی ٹوٹ پائے نہ لفظوں کے سلسلے

وہ شام بھی عجیب تھی جب تجھ سے بچھڑ کر
ابھرے فضا میں چیخ کر آہوں کے سلسلے

پرور دگار بے اماں لوگوں کے واسطے
سمٹے ہوئے ہیں تیری پناہوں کے سلسلے

یہ عشق وہ عجیب سی منزل کہ عمر بھر
چلتے رہے کٹے نہیں راہوں کے سلسلے

ساحل ہمارے پائوں میں زنجیر پڑ گئی
جب بھی گلے تک آگئے بانہوں کے سلسلے

Sad Girl

Sad Girl

تحریر : ساحل منیر