میری آنکھوں میں ہے جو یہ نمی کی انتہا

آنکھوں ,نمی,کمی ,طلبی ,زخم ,خوشی

میری آنکھوں میں ہے جو یہ نمی کی انتہا
تیرے روبرو ہےیہ میری بے بسی کی انتہا

تو بھی مکمل مجھے میسر نہیں ہے
اسے بڑھ کر کیا ہوگی کمی کی انتہا

میرے لب پر تیرے ملنے کی اب دعا نہیں
یوں ہوگئ ہے مجھ میں بے طلبی کی انتہا

سب زخم بھر کے دے دی زخم جدائ
میرے چارہ گر نے کی چارہ گری کی انتہا

دکھ چھپانے کے لئ خوشی کا بہت اظہار کیا
ہو گئ میرے لبوں پر ہنسی کی انتہا

خوشی کے سمندر کا قطرہ نا نصیب ہوا
یہاں تک کہ اب ہوگئ صدی کی انتہا

قتل کرکے پوچھتے ہیں لہو کس کا ہے
میرے قاتل کی ہے یہ سادگی کی انتہا

موت سے ہمکنار کرکے دی آذادی فرح
ظالم صیاد نے کی بے رحمی کی انتہا

Tears

Tears

تحریر : نام فرح بھٹو
Email.Farah.farah735@yahoo.com